و با۔۔سلمیٰ سّید/افسانہ

کہاں سے چلی تھی یہ زندگی جو رکی ہے اب آ کے ایسی جگہ ۔۔۔ جس میں کوئی نہیں ہے سہارا مرا ۔ سہارے تو خیر باپ کے بعد ان گنت تھے مگر جس کو میں کہہ سکوں کوئی جائے پناہ وہ نہیں تھی کہیں ۔۔ زندگی رل گئی
بھوک کے راگ پہ لاج نے ایک دم ایسی انگڑائی لی۔ چشم نم خشک تھی ۔۔جسم میں شِیر و اشک کچھ بھی باقی نہ تھا اسلئے کچھ بھی کر کے مجھے اتنے پیسے جمع کرنے تھے ایک ڈبہ کی قیمت ادا  رسکوں۔۔اپنے بچے کے بدن میں سوکھتی انتڑیوں کو موت کے بے رحم ہاتھوں سے میں نوچ لوں ۔
میں نے سودا کیا ایک خدا ترس سے۔۔۔۔ اس کو میری طرف سے مکمل یقیں تھا کہ میں واقعی مستحق ہوں بہت۔۔۔ سو اس نے مجھے اتنے پیسے دیئے کہ میں ایک ڈبے کی قیمت ادا کرسکی۔۔۔ اپنے معصوم کو دودھ دیتے ہوئے جو دعا میں نے دی,اس خدا ترس کے حق میں مقبول ہو, اس نے استعمال کرنا چاہا تھا بس کچھ پلوں کے لئے اور مرے لئے میرا شکستہ بدن مٹی کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ تھا بس حقیقت یہ ہے مجھ میں تھی مامتا۔۔۔۔ مجھ کو کوئی ندامت نہیں ہے سنو نہ کیا تھا دانستہ کوئی گناہ۔ اس نے کی ہے مدد میری خدمات کے عوض کچھ دنوں بعد مگر اس نے پھیری نظر ۔۔۔۔ یہ کہا اس نے دیکھو یہاں شہر میں آگئی ہے وبا اب نکلنا بھی گھر سے بہت ہی دشوار ہے ۔۔۔۔ میں نہیں آؤں گا اور تم کو بھی اب مشورہ ہے یہ ہی گھر میں بیٹھی رہو ۔ نہ کسی سے ملو ۔ یہ وبا ترکِ تعلق سے ہی قابو میں آئے گی۔
بڑھ کہ میں نے کہا ۔۔۔۔ مجھ کو پیسے تو دو ؟؟
منہ پہ ماسک چڑھاتے یہ اس نے کہا ۔۔۔اب مجھے کوئی خدمت کی حاجت نہیں ۔۔۔ سو مجھے بخش دو ۔۔
چودہ دن ہوگئے ۔۔۔گھر میں آٹا نہیں دال دلیہ نہیں اس پہ بھی صبر ہے پر مگر میرا ننھا دو روز پہلے جمعرات سے چپ سا ہے ۔ جانے کیسی وبا ہے شہر میں ہے چلی ۔۔نہ ہی مجھ کو لگی نہ میرے بچے کو پر خدا ترس کی آنکھ بدلی جو ہے تو وبا چاہے مارے نہ مارے مجھے میری اولاد کو بھوک کا اژدھا کھا چکا۔۔ اب وبا اس شہر کو نگل جائے یا بخش دے مجھ کو کیا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply