• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/زمانے گزر گئے مگر اِن عربوں کے ہاں خارجیوں کی تمیز نہ ختم ہوئی اور نہ ہوگی۔(قسط4)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/زمانے گزر گئے مگر اِن عربوں کے ہاں خارجیوں کی تمیز نہ ختم ہوئی اور نہ ہوگی۔(قسط4)۔۔۔سلمیٰ اعوان

بغداد کا پہلا وار ہی بڑا تیکھا اور کڑا تھا۔خوبصورت چہرے والے ٹیکسی ڈرائیور کو ایک صرف انگریزی کی شُدبُد نہیں تھی۔ باقی سب چویتیوں (ہوشیاریوں) اور سیاحوں کو ڈاج دینے کی چالاکیوں میں وہ اگر دس نمبریا نہیں تو نو نمبریا ضرور تھا۔ ٹیکسی میں سوار تین عورتوں میں سے صرف ثروت کے ہاں عربی کالا ماوالا دال دلیہ تھا۔ میں اور نسرین تو کورے تھے۔
شاہراہوں پر اُگے کھُجور کے درختوں کا بانکپن لُو کے تپھیڑوں کے باوجود آنکھوں کو تھوڑی سی ٹھنڈک اورطراوت کا احساس بخشتا تھا۔داہیں باہیں مٹی رنگے یک و دو منزلہ گھروں پر پڑتی طائرانہ سی نظر صحرائی تصویر کے ایک رُخ کو سامنے لاتی تھی۔ تیل کے گھر میں ہونے کے باوجود گاڑی کا ایر کنڈیشنر آن نہیں تھا۔کُھلے شیشوں سے دوزخ کی ہوا فراٹے مارتی اندر آتی تھی۔
دوپہر اپنے جوبن کے اعتبار سے اِس درجہ جوان تھی کہ اُس پر آنکھ کا ٹکنا محال تھا۔
کوچ سے اُتر کر بغداد کی دھرتی پر قدم رکھا تھا اور جہاں رکھا تھا وہ ایک ویران اور آگ میں تپتا بلتا وسیع و عریض بس ٹرمینل یارڈ تھا۔خارجیوں کا بس سٹینڈ۔زمانے گزر گئے اِن عربوں کے ہاں خارجیوں کی تمیز نہ ختم ہوئی اور نہ ہوگی۔
باہر سڑک کشادہ تھی اور دونوں سمت بازار تھا اور منظر من و عین مردان ونوشہرہ کے قصباتی بازاروں جیسا تھا۔اِس اتنے بڑے جتھّے کو پیدل مارچ کیلئے کہا گیا۔کچھ بہت ہی تھکی ہاری شکستہ دم عورتوں کو چوبی ریڑھیوں میں بٹھادیاگیا۔بالکل ویسی ہی ریڑھیاں کہ جن میں ٹوٹے پھوٹے اعضاء والے لوگوں کو بٹھا کر بھیک مانگی جاتی ہے یا سامان کی ڈھویا ڈھائی ہوتی ہے۔
اب ستم سا ستم تھا۔پیکج والوں کی ٹکے ٹکے کو بچانے والی کمینگیاں تھیں یا کام کی منصوبہ بندی کا جٹکہ پن کہ دمشق سے ڈھائی بجے چلنے والے بھیڑ بکریوں کے اِس ریوڑ کو جس طرح رگیدا گیا۔وہ تو بڑا ہی انسانیت سوز تھا۔چیک پوسٹوں پر ناکہ بندی کے مرحلے یا وردی والوں کی تنی ہوئی سنگینوں کے سایوں میں گنتی جبراً پڑاؤ کے کھاتے میں تھی۔وگرنہ توبگٹٹ ”بھاگتے چلو“والی پالیسی تھی۔انگوروں، کجھوروں کے باغات،مٹیالی پر شکوہ بغداد کی عمارتوں اور دجلے کو بہتے دیکھ کر سکون بھرا سانس تھا۔
”چلو اب پڑاؤ ہوگا۔پر نہیں جی۔سامرہ کا ٹانکا بھرنا ہے اور واپسی امام محمد کے مزار پر حاضری دینی ہے۔پھرکہیں بغداد میں داخلہ ہوگا۔ہر صورت ایک دن بچانا ہے۔“
ناشتے کیلئے ایک جگہ رُکے۔کیا غریب الوطنی کا سا سماں تھا کہ صرف ایک بوتل پانی۔راستے میں جابجا بنی چیک پوسٹوں پر فوجیوں کے پُرے طبیعت پر حُزن وملال کے سائے گہرے کیے دیتے تھے۔ریت کی بوریاں مدافعتی دیواروں کی صورت دھارے اپنے گردوپیش جنگ کا فضلہ بکھیرے نظرآتی تھیں۔ہاں اِن فوجی چوکیوں پر پیلے پھولوں کی لمبی سی بیلیں ضرور لہرا رہی ہوتیں۔عراقی پھولوں سے پیار کرتے ہیں۔موسیقی کے رسیا ہیں اور اب ٹینک توپوں میں اُلجھ گئے ہیں۔
صحرائی راستے کی ویرانی دھوپ کے پسار میں اپنا رنگ لئیے ہوئے تھی اور نخلستانوں جیسے مناظر بھی جابجا تھے۔ دجلہ کے پانیوں پر مرغابیوں کے ڈیرے اُترتے اور اڑتے، کناروں پر بنے خالی گھروں کے آگے وسیع و عریض کھیتوں کے سلسلے تھے۔کجھوروں کے جھنڈ تھے اور میں نے خود سے کہتے ہوئے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
”یہ لوگ خانہ پری کے چکر میں ہیں۔مجھے تو دجلہ اور فرات کو آرام سے دیکھنا ہے۔یقینا میرا خدا کوئی ایسی سبیل میرے لئیے ضرور پیدا کرے گا۔اس وقت تو بھوک پیاس سے حشر ہوا پڑا ہوا ہے۔میں بہت نڈھال ہوں۔“
سامرہ کے تپتے،بگولے اڑتے صحرا میں امام علی ال حادی اور امام حسن ال عسکری کے مزار جیسے صحراؤں میں جنگلی گلابوں کی طرح کھلے ہوئے تھے۔تاہم اس وقت کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھانہ طرزِ تعمیرکا حسن، نہ اُن کی دلربائی۔بس اگر مجھے اچھے لگے تھے تو خطائیوں جیسے وہ بسکٹ جنہیں میں نے بڑی ڈھٹائی سے تین چار بار مانگ مانگ کر کھایا اور قہر برساتی گرمی میں لنگر سے ملنے والی قہوے کی دو چھوڑ تین چار گلاسیوں کو پی کر زہر کو زہر سے مارنے کی کوشش کی تھی۔
بغداد کے مضافات میں بھی امام محمدکا مقبرہ اُس اُجڑے پجڑے قطعے میں کسی عورت کے بدصورت ہاتھ میں پہنی ہوئی فیروزے کی خوشنما انگوٹھی کی مانند دکھتا تھا۔
میں گاڑی میں ہی بیٹھی ویرانیوں کو گھورتی اور کڑھتی رہی تھی۔سارا منظرسبّی اور جیکب آبادکے کسی قصباتی جگہ جیسا تھا۔مٹی دھول کی دھند میں لپٹے کچے گھر،ہواؤں کے بگولوں سے اڑتے پھرتے شاپروں کی یہاں وہاں بکھری بہار۔ ہائے یہ بغداد کیسی بے سرومانی کا شکار نظر آتا تھا۔
اب میں خود سے کہتی تھی کہ یہ کون سے امام محمد ہیں؟جس امام محمد سے میں آشنا ہوں۔وہ فقہ کا بڑا نام،تفسیرو حدیث اور ادب میں اجہتاد کا درجہ رکھنے والے ہیں جن کے بارے میں انہی کے ایک ہونہار شاگرد امام شافعی کا کہنا ہے کہ میں نے قرآن مجید کا عالم امام محمد سے بڑھ کر نہیں دیکھا۔فقہ حنفی والے انہیں بہت مانتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ محمد بن الحسن نہیں ہوسکتے۔مجھے یاد آیا تھا وہ تو رے میں فوت ہوئے تھے۔ہارون رشید ساتھ تھے۔
اس وقت تو میں مزید تفصیل کے موڈ میں نہیں تھی۔جو بھی ہوں گے اللہ کے نیک بندے ہی ہوں گے نا۔
میں نے بھوک کے ہاتھوں آنکھیں موند لی تھیں۔
اور اب بغداد کی سرزمین پرمیں سر پر ہیٹ اوڑھے دم بخود کھڑی تھی۔گنہگار تھی نہ۔بغداد کے آسمان پر بادل کا چھوٹا موٹا ٹکڑا چھوڑ خشخش کے دانے جتنا دھّبہ بھی نہ تھا۔
“یہ تو نری سن سڑوک کے منہ میں جانے والی بات ہے۔”نسرین نے کہا۔
میں نے قریب سے گزرتی ٹیکسی کو ہاتھ دے دیا اور ذرا آگے چلتی ثروت کو بھی کھینچ لیا۔سالار کارواں آگے چلتے تھے۔ٹیکسی ان کے پاس جا کے رُکی۔میں نے گردن نکال کر ہوٹل کا نام پوچھا۔
”بابُ المراد“
ہم کاظمین کے علاقے میں تھے۔حضرت امام موسٰی کاظم کے روضہ ء مبارک کے سنہری گُنبد اور نقشین میناروں نے بُہت دُور سے ہماری توجہ کو کھینچ لیا تھا۔
مگر مصیبت تو یہ آن پڑی تھی کہ ہم اپنے بقیہ ساتھیوں سے بچھڑ گئے تھے۔
ہونٹوں پر”بابُ المراد بابُ المراد“ کا ورد تھا۔
چوک میں کھڑے پولیس مین نے انگریزی میں کہا۔”حرم کی جانبِ بازار بیرونی دیوار ساری کی ساری بابُ المراد کے نام سے جانی جاتی ہے۔فندق(ہوٹل) کا نام بتائیے۔وہ نام کیا تھا؟جانے میری بلا۔اب وہ دونوں مجھے دیکھتی تھیں۔میں چُپ۔بولوں کیا؟
اِس اندر کوتو اللہ سمجھے۔بس ذرا موقع مِلا اور فضیحتا شروع۔ اب منہ میں کنگھُنیاں ڈال لی ہیں۔چلی تھی بڑی ابنِ جبیربننے۔
ٹیکسی والے نے چار پانچ چکر لگا کر تُرشی سے کہا تھا۔”اُتر جائیں۔“
اب اُسے پانچ ڈالر دے رہے ہیں اور وہ ماش کے آٹے کیطرح اینٹھا جا رہا ہے۔ویلوں کیطرح ایک ایک ڈالر کا اضافہ کرتے ہوئے بالاخر میں نے آنکھیں دکھائیں۔
”چلو دفع ہو جاؤ۔بیچ منجھدارچھوڑ کر بھاگ رہے ہو۔ اوپر سے اکڑتے بھی ہو۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply