یا مُظہِرالاقبال۔۔کبیر خان

چند دِن اُدھر کا ذکر ہے، ہم نے لاہور کے سماگ سے اپنی بیگم کے سہاگ کو مردانہ وارکھینچ دھروکرلا جامشورو کی ریتلی ہوا میں پٹخا ہی تھا ، سانسیں ابھی تک بے قابو اور سماعتیں ہنوز بے ترتیب ہی تھیں ۔ ۔ کہ ایک اجنبی نمبر سے کال آئی:
’’سلاہنگا آیا دیا۔۔ ، مگر اقبال بول نئیس۔۔۔۔ پریس۔۔۔۔ پیس۔۔۔۔ یوکہہ ۔۔۔۔ ہیں جی ۔۔۔۔ سمجھ آئی۔۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔(سوچا بیگم خواہ کچھ بھی کہیں ، ثقلِ سماعت کے اور بھی کئی فائدے ہیں ۔ بندہ کان کی بجائے منہ کھول کر بیٹھا رہتا ہے ۔ اور سامنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی بات مکمل انہماک سے سُنی جا رہی ہے )
’’  بہاولپور کا اجنبی  ہوائی ڈاک سے پہنچے گا ۔ مہربانی کر  اُس کی ٹہل سیوا ۔ ۔ نہیں تو میں بھی راولاکوٹی ہوں۔۔  اُرلی پرلی تراڑ اٹھا کر سر پر نہ ماری تو میرابھی نام نہیں‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔

فون کال ’’سُن کر‘‘ ہم پہلی بار مخمصے میں پڑ گئے کہ بہاولپور کا اجنبی ربّ جانے کیسا ہوگا؟۔ ہم تو جن سرائیکیوں سے آشنا رہے ہیں وہ تو اپنی زبان کی طرح بڑے ہی ’’بی بے‘‘ تھے۔ سائیں اختر ہمارا روم میٹ تھا۔ لیکن اُس میں سائیں والی کوئی بات تھی نہ گُن۔ ہماری سہولت کے لئے جس سرائیکی میں بات کرتا تھا، ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ لیکن اُس کی دلداری کے لئے ’’ ہا شِنا ہاشِنا‘‘ کرتے رہتے تھے۔ وہ ہماری دلجوئی کے لئے ’’ویل وتّ، ویل وتّ‘‘کے ساتھ وقفے وقفے سے ایک آدھ مسکراہٹ بھی نتھی کر دیا کرتا تھا ۔ ہمارا دوسرا مہربان اسلم کولسری تھا۔۔ نہ رہا۔اُردو کا بے مثال شاعر۔ چنانچہ جب بھی ملاقات ہوتی ’’ٹھنڈی ماٹھی‘‘ جپھی مارتا اور تادیر مارے رکھتا۔ ۔ تاوقتیکہ کھانسی کے ساتھ ہمارا منہ بلغم سے بھر نہ جاتا۔ اس مرحلہ شوق کے بعد وہ ہم سے اردو میں حال احوال پوچھتا اور پنجابی میں جواب دیتا۔ ہمارا تیسرا دوست عطا اللہ عیسیٰ خیلوی تھا، جو ’’گجتا بجتا ‘‘رہتا تھااور ہم سو جاتے تھے۔ وہ ہمیں جگاتا نہ ہم ہڑبڑاتے۔ پھر یوں ہوا کہ عطا اللہ کی مُرکیاں ہمارے ٹیپ ریکارڈر کی گراریوں میں پنھِس گئیں ۔ ٹیپ چلی نہ ہمارا بس ۔ کالی قمیض کے سارے بٹن بِیڑے ٹوٹ گئے ۔ ہم چاک گریباں پھرا کیے۔ اُس کے بعد محمد خالد اختر ہمارے ہتھے چڑھ گیا ۔۔  وہی محمد خالد اختر جس کے بارے میں بابے اشفاق احمد نے فرمایا تھا:
’’ خالد کے فن کا سب سے بڑا کمال اس کے مغربی علوم کے مطالعے میں مشرقی زندگی کی پہچان ہے ۔ یہ پہچان ایسی انوکھی، ایسی سبک اور کچھ ایسی اچانک ہے کہ اگلے فقرے پر پہنچ جانے کے بعد پچھلا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ایسا انداز مشق سے حاصل نہیں ہوتا ۔ صرف فطرت کی طرف سے ملتا ہے۔ “

پڑھ پڑھ کر ہم نے محمد خالد اختر کا دھواں نکال کر رکھ دیا ۔ بندہ شریف تھا  ،منہ سے کچھ نہ بولا،چُپ چاپ ستم سہتا رہا ۔ اور اسی ستم ظریفی میں چل بسا۔
ٹُر گیا ماہی ، ہتھّ پئی ماراں منجیاں تے

ہم خالد مسعود کو بھی پڑھ مُکانا چاہتے تھے،لیکن درمیان میں جا پتہ چلا کہ وہ ناصرف ڈاہڈا باٹا ہے بلکہ اندر سے نِرا پٹھان بھی ہے۔ پھر ہماری نظر شاکر شجاع آبادی پر جا اٹکی ۔ اُس میں شاکر ہونے کے علاوہ یہ وصف بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے کہ بے حد لِسّا ماڑا ہے ۔ لات مُکّا بھی نہیں کر سکتا۔ سرائیکی بسیو اور ’’شِنا‘‘ سے ہماری ساری آشنائی بس اس قدر ہے۔ چنانچہ نوابوں کے بہاولپور کے بارے میں بھی ہمارا ہاتھ تنگ تر ہے۔ ہاں اپنی ایک عزیزہ ، جو اسلامی یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے گئی تھی(اور مُڑ آکر پڑھانے لگی)،کی زبانی بھاولپورکی کچھ الف لیلوی باتیں سُنیں اور نظرانداز کر دیں ۔(اس لئے کہ راویہ لمبی لمبی چھوڑنے کی عادی بھی تھی)۔ پچھلے دنوں عزیزی ڈاکٹر محمد صغیر خان بھی بہاولپورمیں شاعر مشرق کے حوالہ سے ایک کانفرنس میں شرکت کر کے لوٹا ہے  ۔ تاحال کھُل کر نہیں بولا۔ (سُنا ہے میزبانوں کے ساتھ اُن کی بولی میں گفتگو کرنے کی کوشش میں لفظ ’’گہت‘‘یا ’’غہطّ‘‘اُس کے پہاڑی گلے میں اٹک گیا۔۔۔ نکل کے ہی نہیں دیتا) ۔
اُس کی دیکھا دیکھی گھروالی نے ہم پر بھی ’’ایبڈو‘‘ٹھوک دیا ہے۔۔۔۔۔ ’’اپنا تلفّط درست کرو ورنہ بولتی بند ‘‘  صم’‘ بکم’‘۔

ہم اسی سماجی اسٹیٹس میں دھوپ سیک رہے تھے کہ اچانک کوئی آکرگیٹ کی گھنٹی کے بٹن پر بیٹھ گیا۔ سوچا مانگنے والے کی انگلی بٹن میں پھنس گئی ہے،بہت خوش ہوئے کہ آج ستم ظریف پھنسا ہے تو کچھ دیر پھنسا ہی رہے۔ لیکن ایک آدھ منٹ ہی گذرا ہوگا کہ دروازے کی جھری سے بیلن بردار بیگم کی چنگھاڑ نکلی۔ ترنت جا کر گیٹ کی کُنڈی کھولی۔ سامنے ڈاکیہ ڈاک تانے کھڑا تھا۔ ڈاک وصول کی تو معلوم ہوا، کتاب ہے اورہمارے ہی نام ہے۔ بہت خوش ہوئے کہ ’’کھانا نہ پکانے کی مجرّب ترکیبیں‘‘ آ گئی ہیں  ۔ لیکن تین تہے غلاف میں سے مظہر اقبال مظہر کی کارستانی برآمد ہوئی  ’’بہاولپور میں اجنبی‘‘۔ جسے ہم نے وہیں ، ایک پیر پر کھڑے کھڑے حرف حرف پھرول ڈالا۔ تھا ہی کتنا ایک ، سرِورق،ضابطہ،انتساب ،آرا،اور پیش لفظ کے بعد صرف چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل ننھا منا سا سفرنامہ ۔ جس کے ساتھ امام ضامن کے طور پر دو عدد افسانے بھی لف ہذا کر دیئے گئے ہیں ۔ پڑھ کر جی بھرا نہ نیّت ۔ اُلٹا ہل من مزید کا کیڑا کلبلانے لگا۔ اور اِس ’’کتابڑی‘‘ کی یہی خوبی بندے کے چٹورے پن کو ہوا دیتی ہے۔

ہر کس و ناکس کو اپنی پہلوٹھی کی اولاد کچھ زیادہ ہی پیاری ہوتی ہے۔ حد یہ کہ ضرورت سے زیادہ سلیٹی، ’’لمّانا‘‘اور ’’بد شکلا‘‘ہونے کے باوجود نِکّی بے جی کو یہ ناچیز بُری طرح ’’پالا‘‘(پیارا) تھا۔ اور چاہتی تھیں کہ ہر کوئی ہماری بلائیں لیتا پھرے۔ ہمیں بھی اپنی پہلی معنوی اولاد بہت پیاری لگتی تھی ۔ چنانچہ یہ چاہتے تھے کہ سارا زمانہ اس کے گُن گاتا پھرے ۔ ہمارے بعض مہربانوں اور دوستوں نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے اُس میں اپنی گرہ سے ایسی خوبیاں بھی تھوک کے حساب سے ڈالیں ، جو اس میں سرے سے تھیں ہی نہیں ۔ اور یوں ’’ہمہ یاراں دشت‘‘ہماری پہچان بن گئی ۔ اور ہم اس جھوٹی پہچان تلے دب کے رہ گئے۔ اب اس ملبے تلے سے نکلنے کی جتنی کوشش کرتےہیں ، اُتنے ہی دھنستے جاتے ہیں ۔ (پہاڑی بولی میں اسی کو ’’مَلی‘‘کہتے ہیں ؟)

ہم مظہر اقبال مظہرسے بلاواسطہ واقف نہیں ہیں ۔ لیکن ’’گرائیں مُلخی‘‘ ہونے کے ناتے اُنہیں مَلی میں دھنسانے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ مظہر ’’تراڑیے‘‘ ہیں تو ہم بھی تھوڑے بہت پہاڑیئے ہیں ۔ بے جا تعریفیں کر کے اُن کا دماغ خراب نہیں کریں گے۔ مظہر کو لکھنا آتا ہے۔ ’’اپنا بندہ‘‘میں وہ لکھتے ہیں :
’’ہجرت کی کئی شکلیں ہیں۔ میری نظر میں ہر وہ منظر جو پہلے منظر سے جدا ہے، وہ پہلے منظر کی ہجرت ہے۔ اور ہر نیا منظربیک وقت پہلے منظر کا قاتل بھی ہے اور مسیحا بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ قاتل اور مسیحا بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی نیا منظر پہلے منظر کا قاتل اور کبھی پرانا منظر نئے منظر کا خون کرنے والا‘‘۔

’’کشمیری ناک‘‘کے عنوان سے تحریر کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:
’’  فرید گیٹ کے علاقہ میں ایک پھل فروش سے پھل خریدتے ہوئے سلام دعا ہو گئی۔ یہ سُن کر کہ میرا تعلق کشمیر سے ہے، اُس نےبہت پُر جوش انداز میں بتایا کہ اُسے کشمیری ناک بہت پسند ہے۔ میں نے غیرارادی طور پر اپنے بائیں انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی کے درمیان میں اپنی ناک کو ہلکا سا دبا کر یہ محسوس کرنے کی کوشش بھی کرلی کہ میری ناک کیسی ہے۔ مگر جب اُس نے یہ کہا کہ میں نے ادھر ہی،اسی چوک پر کشمیری ناک بیچی بھی ہے تو میں سٹپٹا گیا۔ جو روحانی تسکین کشمیریوں کی ناک کی تعریف سن کر ہوئی تھی وہ غائب ہو گئی اور مجھے یوں لگا کہ وہ اب حد سے بہت آگے بڑھ گیا ہے،اور اب مجھے اس معاملے کی مزید تفتیش کرکے فوراً پولیس اسٹیشن کا رُخ کرنا چاہیئے۔ مگر مزید ٹٹولنے پر پتہ چلا کہ وہ کشمیری ناشپاتی(جسے سرائیکی میں ناکھ کہتے ہیں)کا ذکر کرر ہا تھا۔‘‘

اگر اس سفر نامہ کو ’’کوٹ‘‘ کرنے لگیں تو یہ تبصرہ تصنیف سے زیادہ طویل ہو جائے گا۔ لہذا ’علموں بس کریں او یار۔ تصنیف کا دوسرا حصّہ دو عدد افسانچوں پر محیط ہے۔ یہ حصّہ بھی تکنیکی لحاظ سے برابر ’’اسٹرانگ ‘‘ ہے۔ ہم دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مصنّف سفرنامچہ سے تھوڑا سا باہر نکل کراسی کو الگ سے بھر پورسفرنامہ کے طور پرشائع کروائیں تو ایک بہتر کنٹری بیوشن ہو گا۔ اور افسانوں کو کسی افسانوی مجموعہ میں شامل کریں تو الگ صنف کی الگ کتاب وجود میں آئے گی جو پہلے سے بڑی بات ہو گی۔ اس سے زیادہ کیا عرض کریں ۔۔۔ تھوڑے لکھے کو بُہتا جانیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ہاں ، اوور سیز کال کرنے سے پہلے فون کی بیٹری چارج کرلینا اچھا ہوتا ۔ بعض لوگ بھانویں نک کٹے نہ بھی ہوں ،کنّ کٹے بہرحال ہوتے ہیں ۔ اَن کہیاں بھی بوُجھ لیتے ہیں ۔ پھر گھر گھر کنسوئیاں پھیلنے لگتی ہیں ۔ باقی آپ خود سیانے بیانے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply