یومِ مزدور کی دیہاڑی/محمد وقاص رشید

انیسویں صدی کے وسط میں اس صنعتی انقلاب کی بنیاد پڑی جس کے ارتقائی عروج کے عہد سے ہم گزر رہے ہیں۔ 1850 میں صنعتی مزدوروں کے اوقاتِ کار دس سے سولہ گھنٹے ہوا کرتے تھے جو بہت زیادہ تھے۔ ایسے میں امریکہ کی مختلف ورکز یونینز نے آٹھ گھنٹے کام Eight Hours Work Movement کو آغاز کیا۔ تین دہائیوں سے زیادہ کا وقت اس جدوجہد میں بیت گیا۔ یکم مئی 1886 کو شکاگو میں پہلا بڑا مظاہرہ تمام ورکرز یونین نے مل کر کیا جو بدقسمتی سے ایک بم دھماکے کی وجہ سے خونی ہو گیا۔ پولیس نے ورکرز پر سیدھا فائر کھول دیا سو کے قریب پولیس والوں اور مزدوروں کی ہلاکت ہوئی تو عوامی رائے بڑی تعداد میں مرنے کی وجہ سے پولیس کے حق میں ہو گئی اور یوں ناصرف بہت سارے مزدوروں کو پکڑ دھکڑ اور حتی کے پھانسیوں تک کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ساتھ ہی آٹھ گھنٹے کام کی تحریک کی کامیابی بھی کھٹائی میں پڑ گئی۔

پھر تین سال بعد دوسرا کنونشن ہوا اور بالآخر 1890 میں مزدوروں نے ایک دن میں آٹھ گھنٹے کام کا کیس جیت لیا۔ یکم مئی کی چھٹی انہی مزدوروں کی یاد میں اور حقوقِ مزدوراں کے اعادے کے لیے منائی جاتی ہے۔

” چھٹی ” ایک طلسماتی تاثیر رکھنے والا لفظ ہے۔ اس سے ابھرنے والے احساسات یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسان ایک جبر کی گردش میں ہے جس سے وقتی آزادی اسے پر سکون کرتی ہے۔ مگر۔۔۔تقسیم در تقسیم شدہ سماج میں یہ کیفیات بھی منقسم ہیں۔ یہاں فرقے صرف مزہب میں تھوڑی ہیں۔

ایک “سکلڈ لیبر ” ہوں ، یہیں بال سفید ہوئے تو سیڑھی کا ایک پائے دان اوپر ہوا وگرنہ وہی خون پسینہ ، وہی جنت میں جنابِ آدم کے گندم کے دانے سے آدمی کے آٹے کا سفر۔

کل یکم مئی تھا۔ یومِ مزدور۔ اس مزدور کا دن جو زیادہ تر کل بھی مزدوری پر تھا۔ وہ جو کہیں بڑی بڑی شاہراہوں اور سڑکوں پر تارکول کے سنگ خود بھی پگھلتا ہے۔ بھٹے پر اینٹیں بنانے سے انکے اونچے اونچے محلوں کی دیواروں میں لگنے تک انہی میں چنا جاتا ہے۔ اسی کا لہو ملوں فیکٹریوں اور کارخانوں میں ایندھن بن کر جلتا ہے۔ بے حس لوہا اوزاروں میں بعد میں ڈھلتا ہے اسکی ہڈیاں اور جلد پہلے۔ یہ زمین جن کاندھوں پر اپنا بوجھ لاد کر اپنے مدار میں محوِ گردش ہے وہ اسی کے کاندھے ہوتے ہیں۔ جی ہاں۔۔۔کائنات کی ہر خوشحالی جسکی مقروض ہے ہر ترقی جسکی ڈیفالٹر ہے۔۔۔کل اس مزدور کا دن تھا۔

روبوٹکس ٹیکنالوجی پہلی دنیا نے آج ایجاد کی۔ تیسری دنیا صدیوں پہلے کر چکی۔ ہمارے ہاں اس روبوٹ کا دوسرا نام مزدور ہے۔ بغیر کچھ کھائے پئے ، اپنی بنیادی ضروریات کے تقاضوں کے بغیر خاموشی سے کام لگا رہتا ہے۔

عجیب عالم ہے۔ بڑی بڑی شاہراہیں بناتا ہے خود کچی پگڈنڈیوں سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ کچی ٹپکتی چھتوں اور گرتی دیواروں سے جاکر اونچے اونچے محلات ، کوٹھیاں اور بنگلے بناتا ہے۔ بھوک سے نچڑے ہوئے بدن پر امیروں کے نیوٹریشنز وہی لاد کر انکے دستر خوانوں کی زینت بناتا ہے۔ پھٹے پرانے چیتھڑوں میں کپڑے کی ملوں کے گودام مخمل و کمخواب سے بھرنا اسی کا ظرف ہے۔ اپنے خون پسینے سے آجر کی تجوریاں بھر کر شام کو اس دوراہے کی صلیب پر گڑا اور کھڑا رہتا ہے کہ ان چند سکوں سے بچوں کی خوشی خریدے یا زندگی ، ہاں ہاں کھلونے یا روٹی۔

سو دو دہائیاں بیت گئیں اپنے ساتھیوں صنعتی مزدوروں کے ساتھ۔ ایک پیغام جو میں بہت سوں کو دینا چاہتا تھا کہ اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کو اپنے بچوں میں منتقل مت ہونے دو اور اسکا بنیادی اور اولین راستہ یہ ہے کہ اپنی آمدن سے زیادہ بچے پیدا کر کے انہیں مستقبل کے مجبور و مقہور مزدور مت بناؤ۔ اپنی آمدن کے جتنے بچے پیدا کر کے انہیں پڑھا لکھا کر اس استحصالی چکی سے نکال دو تو یہ تمہاری سب سے بڑی مزدوری ہے۔

سو بات چھٹی سے شروع ہوئی تھی “مگر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی “۔۔۔میں اس یومِ مزدور پر چھٹی سے خوش خوش گھر روانہ تھا کہ ایک خاکزاد بھاری قدموں سے گیٹ کی طرف روانہ تھا۔ میں نے کل کی چھٹی پر مسرت کا اظہار کیا تو میری طرف عجیب ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ کہنے لگا، ڈیلی ویجر چھٹی پر خوش نہیں ہوتے فکر مند ہوتے ہیں۔ دیہاڑی کٹتی ہے۔ اور دیہاڑی کٹنے کا غم آپ کیا جانے۔۔۔

یعنی یومِ مزدور پر بھی اس ملک کے آدھے مزدور کام پر تھے اور جو گھر تھے وہ فکر مند تھے کہ آج کی دیہاڑی کٹنے کا نقصان کیسے برداشت کریں۔ اس لحاظ سے تو کل واقعی یومِ مزدور تھا۔

ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ خدارا ڈیلی ویجر / دیہاڑی دار مزدور جنہیں بیمار ہونے کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی کم ازکم خود سے منسوب اس دن پر تو چھٹی کے ساتھ “یوم مزدور ” کی مد میں اپنی دیہاڑی پا سکیں۔ اور جنکا کام پر جانا پیشہ ورانہ مجبوری ہو وہ ڈبل دیہاڑی پا سکیں۔ کیا ان ڈیلی ویجرز کی دیہاڑیوں سے چلنے والے اونچے اونچے ایوانوں میں کوئی ایسی قانون سازی ، کوئی ایسا ایگزیکٹو آرڈر ممکن ہے ؟۔ کیا ڈیلی ویجرز کمپنیاں اور ٹھیکے دار صاحبان انکے 364 دنوں کے خراج میں ایک ، صرف ایک دیہاڑی ” یومِ مزدور ” کے نام کی نہیں دے سکتے ؟

اللہ کے نام پر بننے والا ملک ہے کیا الکاسب حبیب اللہ والے اللہ کے دوستوں کے لیے سال میں ایک دن “یومِ مزدور” پر بھی خصوصی احتمام و انتظام نہیں ہو سکتا ، اگر نہیں تو کم ازکم اس دن کا نام ہی تبدیل کر کے ” یومِ آجر ” رکھ دیجیے۔ محنت کشوں کو سلام۔۔۔محنت پائیندہ باد

نظم : “دیہاڑی ”

ڈیلی ویجر اک مزدور

کہنے لگا ہو کر مجبور

یہ یومِ مزدور کی چھٹی

دھرتی کے دستور کی چھٹی

کاش ختم ہی ہو جائے

ماضی میں یہ کھو جائے

ہم مزدور دہاڑی دار

سوچتے رہتے ہیں سرکار

دو مٹھی یہ آٹا ہم

کیسے آج کمائیں گے

اس یومِ مزدور پہ بچے

Advertisements
julia rana solicitors london

روٹی کیسے کھائیں گے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply