آزادی مارچ کے سماجی پہلو۔۔ہارون الرشید

مولانا فضل الرحمن کی طرزِسیاست سے میں اور آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس میں کیا دورائے ہو سکتی ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں میں مولانا کے پائے کا مقرر اس وقت موجود نہیں ہے۔ دلیل مولانا کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی محسوس ہوتی ہے۔ مولانا جب تقریر کے لیے لب کشائی کرتے ہیں تو گویا فضا میں ایک سکوت طاری ہو جاتا ہے اور پورا ماحول مولانا کا ہمنوا لگنے لگتا ہے۔ ابھی چند گھنٹے  قبل مولانا نے اسلام آباد کے جلسے سے تیسرا خطاب کیا ہے۔ خطاب جامع اور مختصر ہونے کے ساتھ موثر اور جاندار بھی تھا۔
الیکشن 2018 کے نتائج آنے کے لمحے سے لے کر آج دن تک مولانا فضل الرحمن واحد سیاستدان ہیں جن کا موجودہ حکومت کے بارے میں مؤقف میں قولاً اورعملاً کوئی تضاد نہیں ہے۔ اور پندرہ مہینے کی تیاری کے بعد مولانا نے حکومت کے خلاف اسلام آباد کے وسط میں پڑاؤ ڈال دیا ہے۔ میں ابھی مولانا فضل الرحمن کا خطاب سن رہا تھا، انہوں نے حکومت پر کڑی تنقید بھی کی، اداروں کے اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی بات کرتے ہوئے نئے عمرانی معاہدے کا ذکر بھی کیا، جلسے کے شرکا کے جذبے کو بھی سراہتے ہوئے سلام پیش کیا اور کارکنوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مولانا کی آواز میں آنسوؤں کی نمی بھی شامل ہو گئی۔ لیکن کراچی سے چلے ہوئے آٹھ روز ہو گئے ہیں اور اسلام  آباد میں پڑاؤ کا ابھی تیسرا روز ختم ہونے کو ہے لیکن مولانا نے ابھی تک سب کو تجسس میں رکھا ہوا ہے کہ وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرنے والے ہیں۔ حکومتی بنچوں پہ بیٹھنے والے پھبتیاں کس رہے ہیں کہ کراچی سے اسلام آباد پہنچ گئے اور یہ پتہ نہیں کہ کرنا کیا ہے، لیکن مولانا نے اپنے پتوں کا سرسری ذکر توتقریروں میں کیا لیکن یہ ابھی تک نہیں بتایا کہ کون سا پتہ وہ کب پھینکیں گے؟ پوری قوم اور میڈیا بحث میں الجھا قیاس آرائیاں کر رہا ہے کہ مولانا کب کیا پتہ پھینکیں گے؟ لیکن فی الحال مولانا نے جس غیرمحسوس طریقے سے مظاہرین کی اسلام آباد سے واپس جانے کیلئے ذہن سازی کی، یہ مولانا ہی کا خاصہ ہے۔
مولانا کیا کریں گے، ڈی چوک جائیں گے، اسمبلیوں سے استعفے دیں گے، پورا پاکستان بند کریں گے، کچھ کیے بغیر واپس جائیں گے یا جو بھی کریں گے لیکن مجھے یہاں مولانا کے مارچ کے سماجی پہلو پر بات کرنا ہے۔ مدارس کے طلبا ہوں یا مولوی طبقہ، عمومی طور پر ہمارے ہاں ان کا ذکر تحقیر اور توہین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ لوگ معاشرے کا دھتکارا ہوا اور زمانے سے پیچھے رہ جانے والا طبقہ ہے جو خود بھی آگے نہیں بڑھنا چاہتا اور ہمارے ملک کو بھی صدیوں پیچھے دھکیل دینا چاہتا ہے۔ نہ انہیں بات کرنے کی تمیز ہوتی ہے، نہ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور چلنے پھرنے کا سلیقہ ہی انہیں آتا ہے۔ اس مارچ میں بھی زیادہ تر تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جن کے بارے میں ہمارا تاثر ایسا ہی ہے لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے دیجیے کہ کم از کم میں نے اپنی ہوش میں ملکِ پاکستان میں اس سے زیادہ منظم اور مثالی احتجاج آج تک نہیں دیکھا۔ پرامن اجتماعات تو دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں لیکن ایسا پرامن اور منظم احتجاج اس سے پہلے کہیں نظر نہیں آیا۔ کراچی سے لے کر اسلام آباد تک ایک پتہ نہیں ٹوٹا، ایک گملے اور پودے کو نقصان نہیں پہنچا، کسی بندے کو ڈرایا دھمکایا نہیں گیا اور یہ سب اُس طبقے کی طرف سے دیکھنے کو ملا جسے میں اور آپ باجماعت اور کورس میں جاہل کہتے ہیں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ اس مارچ کے پرامن ہونے اور رہنے کا ایک گونہ سہرا حکومت کو بھی جاتا ہے کہ جس نے کسی جگہ بھی مظاہرین کو نہیں روکا لیکن مارچ کے شرکا کے مثالی نظم وضبط کا سہرا تو ان مولویوں کے علاوہ کسی اور کے سر نہیں جاتا جن کی تحقیر اور تذلیل کا کوئی موقع ہم ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
ہم بنیادی طور پر ایک مرعوب قوم ہیں اور باہر سے مثالیں ملیں تو پاگلوں کی طرح انہیں ایک سے دوسرے کو پھیلاتے ہیں اور خود کو مطعون کرتے ہیں اور اگرایسی مثالیں گوری چمڑی والوں کی مل جائیں تو پھر تو ہمارا دیوانہ پن عروج کو پہنچ جاتا ہے لیکن جب ویسی ہی مثالیں کوئی ہم میں سے ہم جیسا قائم کرے تو ہم اسے درخوراعتنا ہی نہیں سمجھتے۔ اگر لندن میں ایک بس ڈرائیور کا بیٹا شہر کا میئر بن جائے تو ہم واہ واہ کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ رہنے والا، ہمارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا کوئی مزدور کا بیٹا ایک پارٹی کا سربراہ بن جائے، دو بار صوبائی وزیر اور سینٹ آف پاکستان کا رکن بن جائے تو ہم میں سے بہت سوں کو اس بات کا سرے سے پتہ ہی نہیں ہوتا۔ کچھ عرصہ پہلے غالباً ایک مغربی ملک کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں احتجاج کے دوران ایک ایمبولنس کو رستہ دینے کے لیے میلوں پھیلا جلوس دو حصوں میں تقسیم ہو کر ایمبولنس کو درمیان سے گزرنے کا راستہ دیتا ہے لیکن کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے اس آزادی مارچ کے شرکاء نے جب ایمبولنس کو راستہ دیا تو یہ ہمارا موضوع ہی نہ بن سکا۔ مدرسوں سے پڑھے ہوئے ان جاہل مولویوں کا احتجاج سڑک کے دونوں طرف جاری رہا اور بیچ میں میٹرو بس چلتی رہی لیکن اس کو سراہنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی رہی۔ احتجاجی جلسے کو آج تیسرا روز ہے، شرکائے جلسہ روز صبح اٹھ کر جلسہ گاہ کی صفائی کرتے ہیں لیکن یہ ہم میں سے کسی کو دکھائی ہی نہیں دے رہا۔
اس کے برعکس مولویوں پر دن رات طعنہ زنی کرنے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں کا احتجاج چند سال پہلے اسی اسلام آباد میں ہم نے نہ صرف دیکھا بلکہ بھگتا بھی۔ ڈنڈا برداروں نے نہ صرف قومی اداروں پہ باقاعدہ حملے کیے، پولیس والوں کو ڈنڈوں سے مارا پیٹا، خواتین اینکرز کو ہراساں کیا بلکہ ایمبولنسوں کا راستہ بھی روکا اور میٹرو بسوں کو بھی توڑا پھوڑا۔ اس سب کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے اور اگر کوئی بھولنا چاہتا بھی ہے تو ٹیکنالوجی کا یہ دور یہ سب بھولنے ہی کب دیتا ہے۔بی بی شہید  کی شہادت کے فوری بعد پھوٹنے والے فسادات ہوں،  میاں صاحب کی برطرفی کے بعد جلوس  کی گاڑیوں کے نیچے کچلے جاتے  بچے ہوں  یا  ڈنڈے لہراتے  پی ٹی وی  کی عمارت پر حملہ آور ہوتے بے انصافی ہوں، یا ناموس رسالت ﷺ کے لیے احتجاج  کے نام پر فساد  کرتے شمع رسالت ﷺ کے پروانے ہوں ،  ڈی چوک میں پھیلا تعفن ہو یا سپریم کورٹ کی دیواروں پر لٹکتی شلواریں، یہ سب کس کو یاد نہیں اور اس کے علاوہ احتجاج کا رنگ ہم نے دیکھا بھی کب ہے۔ اس سب کے برعکس جن پیلے کپڑے والوں کو ملیشیا بنا کے پیش کیا گیا، جنہیں جتھا بردار اور اسلحے سے لیس ہو کر اسلام آباد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد بتایا گیا، اُن کا مثالی نظم وضبط اب ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔
میں اس حکومت کا سخت ناقد ہوں اوردل تو یہی چاہتا ہے کہ شام سے قبل اس حکومت کا خاتمہ ہو جائے گو کہ دماغ اس خواہش میں دل کا ساتھ نہیں دیتا لیکن یہ حکومت اس تحریک کے نتیجے میں گھر جائے یا نہ جائے، یہ احتجاج اپنے مقصد میں کامیاب ہو یا نہ ہو اس مارچ کا یہ تاثر اور یہ پیغام ہی اگر قوم سمجھ لے اور قبول کرلے تو یہ اس مارچ کی، ان جاہل اور گنوار مولویوں کی ایک بڑی مثبت اوراخلاقی فتح ہو گی۔ اس آئینے میں اگر ہم سب اپنا چہرہ دیکھیں اور خاص طور پر موجودہ وزیراعظم اور اُن کے مداحین تو یقیناً شرمندگی محسوس کریں گے لیکن اس کے لیے شرم کا موجود ہونا بڑی بنیادی شرط ہے جو خان صاحب اور اُن کے مداح ٹولے میں ناپید ہے۔ میں یقین سے تو ابھی بھی نہیں کہہ سکتا کہ  شرکائے جلسہ آخر تک اس نظم و ضبط کو برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں لیکن مولانا کی تقریرکے سحر کی طرح مولانا کے مداحین اپنے طرزِ عمل کا یہ سحر اگر برقرار رکھ پائے اور اگر قوم نے احتجاج کے اس طرزِ عمل کو آیندہ کے لیے اپنا لیا تو یہ اس آزادی مارچ کا وزیراعظم کے استعفے سے بڑا حاصل بھی ہو گا اور اس ملک کے سماجی رویوں پر ایک بڑا احسان بھی ہو گا اور مستقبل میں ہونے والے احتجاجوں میں  بطور ایک حوالہ یاد بھی رکھا جائے گا۔
یہ میری خواہش ہے اور شاید خواہش ہی رہ جائے کہ ہمارا میڈیا کچھ وقت ہمارے  سیاسی کارکنوں کے ایسے سماجی رویوں  کو بھی اپنی بحث کا موضوع بنائے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply