بادبان!ٹمٹماتے چراغوں کی داستان(قسط6)۔۔۔۔محمد خان چوہدری

صبح سویرے باوا جی نماز تسبیح اور زیارت پڑھ کر فارغ ہوئے تو منشی مانا سائیکل پر چک سے نائی  ساتھ لے کے آ گیا۔

شروع سے جب باوا جی یہاں آتے تو ان کے ذاتی کام منشی ہی کرتا۔ کہیں جاتے تو ٹانگہ لانا، ساتھ جانا ، روز کا جوڑا تیار کرنا، جوتےپالش کرنا، غرض ہر چھوٹا  بڑیا کام  اس کا فرض تھا، بچپن سے مزاج سمجھتا تھا، لیکن گزشتہ دو سال میں جب سے زمام کار اصغر شاہ نے سنبھالی ،مانے منشی کے دل میں اپنی یہ حیثیت چھن جانے کا خوف جاگزین رہنے لگا۔

نائی  نے باوا جی  کی حجامت بنائی ، داڑھی کا خط سنوارا، منشی نے سفید کاٹن کا جوڑا استری کر کے رکھا، سفید گرگابی پالش سے چمکائی،جب تک باوا جی نہا کے تیار ہوئے اصغر شاہ بھی شلوار قمیض پر بلیزر پہن کے بیڈ روم سے نکل آیا۔

ناشتہ کرنے تک ڈرائیور نے جیپ چمکا کے برآمدے کے سامنے کھڑی کر دی، دوسرے نوکر نے کلاشنکوف پچھلی سیٹ کے نیچے رکھی، منشی بھی گھر سے تیار ہو کے آ گیا،باوا جی کا قد چھ فٹ تھا اور جب سر پے کلع والی دستار سجائی  تو قامت سات فٹ سے زائد ہو گئی۔سفید براک جوڑا جس کا بچیوں والا کھلا کُرتا، سفید جوتے، سفید رنگ کے ہی سن گلاسز، سفید پگڑی سے جھانکتے گردن پر سفید بالوں کے گھنگریالے پٹے۔ سفید ریش، جب جیپ کی اگلی سیٹ پر بیٹھے تو وہ بھی سج گئی۔

اصغر نے خود کار  چلائی، منشی نے بستہ بنا کےفائلیں اٹھائیں اور گارڈ کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے،ڈیرے سے نکلتے اصغر نے باوا جی کو روٹ بتایا۔۔ کہ یہاں دفاتر میں کام رکنے پہ  سفارش کرانے کی بجائے پہلے ہی اوپر سے ہدایات دلوانے سے کام جلدی اور آسان ہوتے ہیں اس لئے پہلے ڈی سی آفس جائیں گے، دس سے گیارہ بجے ملاقات کا ٹائم بھی ہوتاہے۔

ٹھیک دس بجے وہ دفتر کی پارکنگ میں تھے، اصغر نے انہیں جیپ میں ہی انتظار کرنے کو کہا، خود دفتر میں ناظر صاحب  کے پاس گیا،انہیں تفصیل بتائی  ، وہ ڈی سی صاحب پاس گئے، پھر اصغر کے ساتھ جیپ تک آئے، باوا جی کو ساتھ لے کے جب ڈی سی صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو ڈی سی صاحب باوا جی کی پرسنالٹی دیکھ کے بے اختیار اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے، بہت احترام سے ریسیو کیا۔ تعارفی گفتگو کے بعد زمین منتقلی کی بات ہوئی، ڈی سی صاحب نے ناظر کوکہا کہ تحصیل آفس فون کر دیں، باوا جی کو تسلی دی کہ کوئی  مسئلہ ہو تو وہ بلاتکلف یہاں تشریف لائی۔

چائے کا پوچھا تو ناظر نے عرض کی ملاقاتیوں کا رش ہے چائے وہ اپنے دفتر میں پلائیں گے،ناظر کے دفتر آتے وہاں لوگ باوا جی دیکھتے رہ گئے، دفتر میں بیٹھے ، چائے پیتے اصغر نے میجر انکل کے گھر فون ملوایا،لائن پر میجر صاحب خود تھے ادب سے سلام کرتے بتایا کہ باوا جی کے ساتھ ڈی سی آفس ہیں، میجر صاحب نے باوا جی سے بات کی،گھر آنے پر اصرار کیا تو طے پایا کہ تحصیل آفس سے فارغ ہو کے انکے گھر جائیں گے۔

ناظر صاحب کی تحصیلدار سے بات ہو گئی، تو ان سے وداع ہو کے تھوڑی ہی دور واقع تحصیل پہنچ گئے،یہاں پارکنگ کے سامنے وکلا، وثیقہ نویس، عرضی نویس کے پھٹے تھے، ساتھ ہی کچہری بھی تھی،الطاف شاہ وثیقہ نویس باوا جی کے پرانے جاننے والے بھی تھے ۔ دور سے پہچان گئے ، انکے جیپ سے اترنے تک وہ وہاں پہنچ گئے، مصافحہ معانقہ کے بعد سیدھے تحصیلدار کے دفتر گئے،اسے اطلاع تھی ۔ منشی سے فائل لے کے اصغر شاہ نے الطاف شاہ کے ساتھ مل کے گاؤں کے تبادلہ انتقال سمیت مختار نامے اور انکے برقرار ہونے کی تصدیق شدہ دستاویز جس پر ڈیٹ اوپن تھی سب چیک کروا دیئے، تحصیلدار نے دفتری اہلکار کو طلب کیا،کاغذات سارے درست تھے، سوال یہ پیدا ہوا کہ باوا جی بطور مختار عام یہ زمین ،حاطہ، اور منڈی کی دکان جو ان کے مرحوم کزن کےوارثان کی ملکیت تھی جن کے وہ جنرل پاور آف اٹارنی ہولڈر تھے کس کے نام منتقل کریں گے ؟

مشتری یا مشتریان کون ہیں ۔۔۔ باوا جی خود اپنے نام تو کر ہی نہیں  سکتے تھے ۔

اس پہ دفتر میں سناٹا چھا گیا کہ اس پہلو پر تو سوچا ہی نہیں  گیا تھا ۔۔

خیر الطاف شاہ نے تجویز دی کہ کاغذات چیک ہو چکے ہیں ، کل تک یہ فیصلہ کر کے باقی لکھائی  انتقال کی کاروائی  روک دیں۔
کچہری سے نکل کے میجر صاحب کے گھر جاتے یہ بات زیر غور آئی  کہ  گفٹ کیا لے کے جائیں ، ملتان میں تو حلوہ مشہور ہے لیکن لوکل وزٹ کو نہیں ، فروٹ یہاں پیدا ہوتے ہیں، منشی نے رائے دی جو بھی ہو مٹھائی  کا ٹوکرہ بہتر ہو گا، اصغر ہنس دیا کہ پینڈو پن لگے گا، باوا جی نے کہا نقد کیش دینا آسان ہو گا، اصغر نے کینٹ میں جیپ راحت بیکری پر جا روکی، کیک اور بسکٹ گفٹ پیک کرائے ، ساتھ دونوں پیکٹ پہ  ، لفافے میں پانچ سو روپے رکھ کے ٹیگ کرائے ایک لفافے پر ، بھابھی صاحبہ ، اور دوسرے پر ، بچوں کے لئے ، لکھ کے کارڈ بھی چپکا دیئے،ساتھ فرام سید وقار شاہ بھی موٹے حروف میں لکھ دیا۔

میجر صاحب منتظر تھے ،بڑے تپاک سے ملے، منشی اور باوا جی سے حال احوال ہو رہا تھا کہ اصغر دونوں پیکٹ لے کے بنگلے کے اندر گیا ، میجر صاحب کی بیگم کو سلام کیا بچوں سے ملا اور گفٹ پکڑا کے گول کمرے میں آیا جہاں سب نے آکے باوا جی کو سلام کیا، بیگم اور بچے واپس ہوئے، باوا جی نے دستار اتار کے میز پر ٹکائی ، باتھ روم سے ہو کے آئے،کولڈ ڈرنک لئے اردلی آیا ، وہ پیتے ہوئے  محفل  جم گئی،کھانا لگنے تک عمومی بات چیت ہوتی رہی، باوا جی اور منشی کافی حیران ہوئے کہ میجر صاحب کو زمین بارے اور دیگر ہر بات کا علم تھا۔ کھانے کے بعد زمین کے انتقال بارے تفصیل سے بات ہوئی ،باوا جی کا خیال تھا کہ مربعہ دکان اور حاطہ تینوں بیٹوں کے نام ہونا چاہیے ۔ منشی نے تائید کی ،اصغر چُپ رہا۔

منشی کو یہ مداخلت مہنگی پڑی۔ سادات کے گھروں میں بچپن سے رہتے اسے گھر کے فرد کی حیثیت حاصل تھی۔۔۔ساتھ بٹھا کے کھانا کھلانے تک تو باوا جی کے  احترام میں اسے برداشت کیا گیا لیکن اب میجر صاحب نے اردلی کو بلا کے کہا کہ منشی جی کو ساتھ لے جاؤ اور باہر لان میں کھلی جگہ بٹھاؤ انکی یہاں طبیعت بوجھل ہو رہی ہے۔

اس کے بعد۔میجر صاحب نے بڑے ادب سے باوا جی سےاختلاف کیا، اور بات گاؤں کی گدی نشینی سے شروع کی۔کہنے لگے ، بھائی  جان آپ نے بڑے بیٹے اکبر شاہ کو گدی کا جانشین بنا کے گاؤں میں دربار، مریدوں ، زمینوں سمیت ہر شے سونپ دی ہے، جعفر شاہ فوج میں میجر ہے ان میں سے کوئی  بھی نہ یہاں آ کے رہ سکتا ہے نہ یہاں کے ماحول اور مسائل سے واقف ہے، اصغر آپکی نظر میں بچہ ہے، گھر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ بچہ ہی رہے گا۔لیکن دو سال میں میں نے اس کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اسکی ٹریننگ بھی کی ہے، معذرت کے ساتھ یہ آج بھی بڑے بھائیوں سے زیادہ ذمہ دار، سمجھدار، دنیا دار اور ہشیار ہے، آپ کی اولاد ہے آپ میرے بڑے بھائی  ہیں مجھے تینوں برابر عزیز ہیں، میرا مشورہ ہے آپ یہ کرم شاہ مرحوم والا مربعہ ، دکان اور حاطہ اس کے نام کر دیں۔
بلکہ بہتر ہے گاؤں والی زمین بڑے بیٹوں کے نام کرا دیں، حساب کتاب سے کمی بیشی جمع تفریق کر کے حصے کر دیں، اصغر کو آپ نے یہاں جانشین کرنا ہے، تو یہ فیصلہ کریں، اسکی تعلیم شادی اور گھر بنانے کے اخراجات بھی اٹھانے    ہیں، گاؤں میں آبائی  حویلی اور ملحقہ زمین بیٹیوں اور اصغر کو دیں ، اپنا مربعہ بھی شاید آپکو اس کے حصے میں دینا پڑے گا۔

باوا جی دم بخود بات سنتے رہے شاید ساتھ ذہن میں حساب بھی لگا رہے ہوں۔۔کہنے لگے باقی تقسیم رہنے دیں ، کل کرم شاہ کی وراثت تو اس کے نام کرتے ہیں یہ آپکی رائے احسن ہے۔
میں نے مان لی۔
میجر صاحب نے اضافہ کر دیا، کل میں آپ اور اصغر تحصیل جائیں گے، منشی کو ساتھ نہیں  لائیے گا،وفادار سہی لیکن ملازم ہے۔ اسے ان امور سے باہر رکھیں، وہ یہاں چک میں خود کو ملازم نہیں  مالک سمجھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply