میری اور وسعت اللٰہ خان صاحب کی نسل کا دکھ!

چند دن پہلے ایک پروگرام میں وسعت اللہ خان صاحب کو یہ کہتے سنا کہ انہوں نے پاکستان میں وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ جب معاشرتی اور قومی سطح پر ہر قسم کے مکالمے اور مباحثے کی اجازت اور گنجائش ہوا کرتی تھی۔ آج کے دنوں میں جن موضوعات کو ممنوعہ علاقہ قرار دیا جاتا ہے، اِن پر کھلے عام بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا۔ ایک لمحے کو تو مجھے اُن پر رشک آنے لگا کہ اُن کا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے اتنے اچھے دن بھی دیکھے ہیں۔
انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے دور کا موجودہ دور سے موازنہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ دور اِس لحاظ سے بہتر تھا کہ ریاستی بیانیہ کی مخالفت کرنے والوں کو اُس دور میں ریاستی ادارے مار پیٹ کر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ آجکل کی طرح غائب نہیں کر دیا کرتے تھے۔ مجھے ایک دفع پھر وسعت اللہ خان صاحب پر رشک آیا کہ اُنہوں نے فوجی اقتدار کا ایسا دور بھی دیکھا ہے۔
جنرل ضیاءالحق کے اقتدار کا جب خاتمہ ہوا تو اُس وقت میری عمر تقریباً 11 برس تھی۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو میرے جنرل نالج کا آغاذ افغان جہاد کے فضائل سے ہوا کہ کس طرح سے یہ حق و باطل کا معرکہ ہے۔ پھر جنرل نالج میں مزید اضافہ یہ جان کر ہوا کہ ملک میں شیعہ اور سُنیوں کے درمیان بھی کوئی حق و باطل کا معرکہ برپا ہے جو ایران میں انقلاب آنے سے پہلے کبھی بھی ایسی عملی حیثیت و مقام نہیں رکھتا تھا۔ پھر مزید یہ انکشاف ہوا کہ کراچی میں بھی کوئی حق و باطل کا معرکہِ برپا ہے۔
پھر 1988 کے انتخابات ہوئے۔ پتا چلا کہ پپلزپارٹی اور اُس کی مخالف جماعتوں میں بھی ایک نئے حق و باطل کے معرکے نے جنم لیا ہے۔ حق و باطل کا یہ معرکہِ کوئی 11 برس تک جاری رہا تاآنکہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک نئے حق و باطل کے معرکے کو جنم دیا۔
عجب حسنِ اتفاق ہے کہ افغانستان میں روسی انخلا کے ساتھ ہی جہاں حق اور باطل کا ایک معرکہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے وہیں 1988 میں پپلز پارٹی اور اُسکے مخالفین کے مابین حق و باطل کا معرکہ برپا کرنے کے ساتھ ساتھ حق اور باطل کی قوتوں کو ایک اور معرکے کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا میدان کشمیر قرار پایا۔
جنرل پرویز مشرف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ایک طرف پپلز پارٹی اور اُس کے مخالف قوتوں کے درمیان جاری معرکے کو انجام پر پہنچایا تو دوسری طرف کشمیر میں برپا حق و باطل کا معرکہِ بھی اپنے انجام کو پہنچایا۔ انپوں نے عالمی حالات کے تناظر میں ایک نئے معرکہِ حق و باطل کی بنیاد ڈالی۔ روشن خیالی بمقابلہ مذہبی شدت پسندی۔ یہ معرکہِ حق و باطل تا حال شدّ و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
شدت پسندی کو کچلنے کا علم اٹھانے والے جنرل پرویز مشرف خود تو اِس وقت ملک سے باہر روشن خیال محفلوں کی زینت بن کر اپنی روشن خیالی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں لیکن اُن کی بھڑکائی گئی آگ ایک طرف تو ہزاروں قومی سلامتی کے ذمہ دار اہلکاروں اور عام پاکستانیوں کو نگل چکی ہے لیکن دوسری طرف اِس جنگ نے شدت پسندی کو کم کرنے کی بجائے دونوں طرف شدت پسندی کا وہ ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں کوئی بھی حساس سوچ رکھنے والا درد مند پاکستانی نہ تو مذہبی طبقات کی غلطیوں پر تنقید کرنے میں خود کو آزاد پاتا ہے اور نہ ہی دہائیوں پر محیط ریاست کے کوتاہ کردار پر تنقید کر سکتا ہے۔ ہمدرد لوگ یہی مشورہ دے کر خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں کہ “جان ہے تو جہان ہے”۔
میں ایسی نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے اپنے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک امن نہیں دیکھا۔ انتشار دیکھا ہے اور انسانیت کی حرمت کو پامال ہوتے دیکھا ہے۔ میں اِس بات کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ حق و باطل کے اِن تمام معرکوں کے پیچھے کارفرما قوت اللہ کی ہے یا باطل کی۔ میں اِس بات کا فیصلہ کرنے سے بھی قاصر ہوں کہ میرا دکھ اور محرومی زیادہ ہے یا وسعت اللہ خان صاحب کا۔ ، اُس کا دکھ اور محرومی زیادہ ہیں جس نے کچھ پایا ہی نہیں یا اُس کا دکھ زیادہ ہے جس نے کچھ پا کر کھو دیا ہو۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply