سوشلزم! آزادی کی صدا

میرے ایک عزیز دوست نے عرق ریزی کے بعد بڑی تعداد میں مواد اکٹھا کیا، جو شاید ساٹھ اور ستر کی دہائی کے مولویوں نے کمیونسٹوں کے خلاف لکھا۔ میرے ایک بڑے پیارے دوست نے مجھے کہا کہ بھئی یہ کچھ لکھا گیا ہے اور اس پہ ایک نگاہ کی جائے، میں نے عرض کی کہ کامریڈ آپ مجھ سے کہیں زیادہ باعلم انسان ہیں، خود لکھتے تو بہتر جواب بنتا۔ جس پہ کامریڈ نے کہا کہ تم کس دن کام آٶ گے، ایسے ہی لکھو گے تو علم میں اضافہ ہوگا نا۔ میں نے ان کی بات پہ عمل کیا اور من و عن تسلیم کرکے یہ ایک ناقص سا جواب گوش و گزار کردیا۔
پہلا سوال یہ اٹھایا گیا کہ ”ایک وقت تھا جب کمیونزم کا فلسفہ ایک مضبوط فلسفہ تھا“
تو میری عرض یہ ہے کہ کیا اب سوشلزم کا فلسفہ کمزور ہوگیا؟ کمیونزم وہ مرحلہ ہے جو بے طبقاتی نظام قائم کرنے کا مرحلہ ہے، اس سے پہلے سوشلزم کا نفاذ ہوگا۔ ہم مارکسی لیننی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ سوشلزم کا مرحلہ ہی ہماری تاریخی ارتقا کی پیڑی ہے اس کے بغیر کمیونزم نافذ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو ایسا سوچتا ہے وہ انارکسٹ ہے کمیونسٹ نہیں۔ دوسری بات اس سامراجی کورپوریٹ سرمایہ داری کے دور میں جب دنیا کی پچانوے فیصد دولت تقریباً ایک ہزار لوگوں کے تصرف میں ہے۔ غریب غریب سے غریب ترین ہوتا جارہا ہے اور امرا کی تعداد امیر سے امیر ترین ہوتی جارہی ہے تو اس صورت میں ان کے پاس دوسرا راستہ کون سا ہے؟ کیا سرمایہ داری سے امید یا واپس جاگیرداری کی طرف واپسی؟ اس صورت میں سوشلزم ہی واحد راستہ ہے جو اس طبقاتی تضاد کو کم تر حالت کی طرف لا کر کمیونزم کے مرحلے میں ختم کرسکتا ہے۔ لیکن بھائی صاحب کا مقصد مفاد پرست یا غداروں کا تعلق مارکسی لیننی تحریک سے جوڑنا تھا جس کا تعلق قائم کرنے کے انھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن پھر بھی میں کہوں گا کہ مفاد پرست ہر تحریک نظریے اور سوچ کے گروہوں میں موجود ہوتے ہیں جو برا وقت آنے پر اپنا الو بدل کر نئے آقا کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ جن لوگوں کا بھائی صاحب نے زکر کیا انہی کے قبیل کے ایک شخص جمال نقوی نے سوشلزم مخالف کتاب بھی لکھی، لیکن ہمیں اس پہ زیادہ حیرت نہ ہوئی کیونکہ مصنف سوویت یونین دور میں دورے کرتے رہے اور اپنی بیٹی کی مفت تعلیم کا مقصد بھی سوویت یونین سے حاصل کیا تو ایسے لوگ تو موقع پرست تھے ان کا تو زکر ہی کیا۔ ان ہی کے قبیل کے ایک شخص نے کہا کہ سوشلزم ناقابل عمل ہے جب کہ انہدام سے پہلے وہ کمیونسٹ پارٹی کے اعٰلی عہدے دار رہے۔
سوشلسٹ ریاستوں کا انہدام ہوا جس کی وجہ ناقص پالیسیاں اور مفاد پرستوں کے ٹولے کا قبضہ تھا۔ مارکسسٹوں نے اس کی مخالفت کی ہر سطح پر۔ چاہے وہ یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو کے خلاف کامریڈ سٹالن کی جدوجہد تھی یا خروشیف اور ڈینگ زیاو پنگ ٹولے کے خلاف کامریڈ انور ہوژا کی جدوجہد۔ ہم نے سوشلسٹ ریاستوں میں مفاد پرست بیوروکریسی پہ بھی چوٹ لگائی تو دوسری جانب اپنے لوگوں پہ ہونے والے سامراجی حملوں کے خلاف ہر سطح پہ جنگ لڑی خواہ سفارتی تھی یا مسلح۔
میرے بھائی نے پھر کہا کہ الحاد سوشلزم کا بنیادی جزو ہے تو میں ان کی غلط فہمی دور کرنا چاہوں گا تاریخی حوالہ جات کے ساتھ،
لینن نے اکتوبر انقلاب کے بعد دسمبر 1917 میں ایک عوامی پیغام جو روسی مسلمانوں کے لیے تھا وہ نشر کیا.
” آپکی وہ تمام مساجد اور عبادت گھر جو تباہ کردئیے گئے اور آپکے عقائد اور رسوم جو زار اور روسی استحصالیوں کے دور میں دھتکارے گئے, اب وہ تمام مساجد, رسوم و رواج اور عقائد آزاد اور ناقابلِ پامال ہیں”
(فچریزال ہالم, جکارتہ پوسٹ اکتوبر 8, 2009)
1909 میں جب پارٹی میں موجود مڈل کلاس زہن زارِ روس کی پیداوار دانشور سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے, لینن نے اور بالشیکووں نے اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ معاشی اور معاشرتی حقائق تمام اقوام کو برابری کی بنیاد پہ متاثر کرتے ہیں ایک سوشلسٹ پالیسی تشکیل دی. لینن نے اس بات کی شدید مخالفت کی کہ کسی بھی محنت کش طبقے کے لوگوں کو مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے, اس فضول تحریک (جس میں لوگوں کو الحاد کی ترغیب دی جارہی تھی) کے روح رواں اشخاص کو لینن نے “بچگانہ زہن کے مادہ پرست” ہونے کا لقب دیا. یہ ہی سوشلسٹ پالیسی انقلاب کے بعد بھی جاری و ساری رکھی گئی.
(بالشیویک اور اسلام, ڈیو کروچ)
حق خودارادیت کے حق کو تسلیم کیا گیا, مقدس مقامات کی واپسی کردی گئی اور جمعہ کو پورے وسطی ایشیا میں قانونی چھٹی کا درجہ دے دیا گیا. اس کے علاوہ 1922 میں سوویت قانونی کمیسار کے زیرانتظام شریعہ عدالتوں کا جال پورے وسطی ایشیا اور قفقاز میں پھیلا دیا گیا. سوویت یونین ایک غیر مذہبی ریاست (Non Religious)تھی مگر خلافِ مذہیت (Anti Religion)نہیں تھی.
کامریڈ سٹالن کی مذہب پہ بہت سی تحریریں اور واقعات ہیں جو انکے بعد ایسپرسو سٹالنسٹ نام کی ایک ویب سائٹ نے شائع کیے, چند کا حوالہ دیتا جاوں.
روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور ضروری اقدامات, دسمبر 1901, ” زار کی بادشاہت کے کھنڈرات پہ ہی ایک ایسا نظام تشکیل پائے گا, جو عوامی زیر انتظام ہوگا. اظہار رائے کی آزادی ہوگی, مذہبی عقائد ادا کرنے کی آزادی ہوگی, اور تمام قومیتوں کو آزادی ہوگی. ایسا ہی نظام ہے جس میں استحصال زدہ لوگ اپنا استحصال کنندگان کے ہاتھوں استحصال روک سکتے ہیں.”
دو تصادم, جنوری 7,1906 ” آج کے دن آپ کو کوئی چرچ کا ایسا بینر نظر نہیں آئے گا جس پہ لکھا ہو کہ ” خدا زار کی حفاظت کرے” بلکہ مارکس اور اینگلز کے لہراتے ہوئے سرخ پرچم نظر آئے گے.”
داغستان کے لوگوں کی کانگریس, دسمبر 13, 1920 “سوویت روس کی حکومت تمام اقوام کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنا نظام سرکار چلائیں. سوویت روس کی حکومت سمجھتی ہے کہ شریعہ کو کامن قانون تسلیم کرلیا جائے کیونکہ داغستان کے عوام اسے خود کے لیے بہتر اور فائدہ مند سمجھتے ہیں.”
ترک علاقے کے لوگوں کی کانگریس, دسمبر 17,1920
” تمام اقوام خواہ وہ چیچن ہیں, انگوش یا کبارڈین, اوستیشین, کاراچائی یا قازق جو پہاڑی علاقہ جات میں رہتے ہیں اور سوویت یونین کے شہری بھی بننا چاہتے ہیں وہ اپنے طرزِ حیات کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں, اور یہ بات بتانے میں کوئی مزائقہ نہیں کہ یہ لوگ سوویت یونین کے وفادار بیٹوں کی طرح ہیں اور یہ سوویت روس کے مفادات کا دفاع کرتے رہیں گے. یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شریعہ ضروری ہے تو اسے رہنے دیا جائے اور ہماری شریعہ پہ کسی بھی قسم کا جنگ مسلط کرنے کا ارادہ نہیں.”
دسویں کانگریس کمیونسٹ پارٹی, مارچ 8, 1921
” کرغزیہ میں لوگ سور نہیں پالتے اور ان کے خوراک کے کوٹہ سے سور کے گوشت کا اخراج کیا جائے. کمیساریٹ آف فوڈ کو فوراً حکم دیا جائے کہ سور کے فارم کہیں اور منتقل کیے جائیں اور حلال خوراک کو اجرا کیا جائے”.
اب اس سے زیادہ میں اپنے بھائی کو مذہبی ہم آہنگی اور آزادی کی مثالیں کیا دوں؟ یہاں تو الحاد تو کیا ایک اسلامی ریاست محسوس ہوتی ہے سوویت یونین۔
بھائی نے کہا کہ کمیونزم کا گھر ماسکو میں یہ شکست و ریخت کا شکار ہوا تو بھائی میری چھوٹی سی عرض کہ ماسکو کوئی سوشلزم کا گھر نہیں تھا، سوشلزم کا گھر تو ماسکو میں آباد مزدور کا گھر ہے، سوشلزم کا گھر تو سندھ کے غریب ہاری کا گھر ہے، سوشلزم کا گھر تو جھاڑکھنڈ میں آباد استحصال زدہ آدی واسی کا گھر ہے، سوشلزم لیڈر نہیں عوام لے آکر آتی ہے اور بھائی کو غلط فہمی ہے کہ شاید سوشلزم صرف سوویت یونین میں ہی نافذ ہوا، سوشلزم ایشیا،افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکہ کے تیس سے زائد ممالک میں نافذ ہوا۔نظریات کا گھر نہیں ہوتا، بلکہ نظریات لوگوں سے جیتے ہیں، نا کہ ملکوں کی امداد سے۔
اگر بھائی کو سرمایہ داری پہ تنقید سے مسئلہ ہے تو اس کا کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں، ہم ایسے ہی اپنے پسماندہ اور غریب لوگوں کی حمایت میں بولتے اور لکھتے رہیں گے۔ البتہ جو مفاد پرست تھے وہ غدار ہی ہیں۔ چاہے وہ میرجعفر کی شکل میں ہو یا میر قاسم کی شکل میں یا جمال نقوی اور گورباچوف اور لبرل دھڑوں کی شکل میں۔
جن لبرلز کو آپ لوگ سابقہ کمیونسٹ کہتے ہیں ان کی کوئی جدوجہد آپ دکھا سکتے ہیں جن لوگوں کا میرے بھائی نے حلیہ بتایا وہ تو مڈل کلاسیے یا اپر کلاسیے لگتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے لوگ تو اس قسم کے چونچلوں میں کبھی نہیں پڑے۔
اس تحریر کا مقصد عظیم لوگوں کی قربانیاں باور کرانا ہے اور انقلابات کے لیے جان کی پروا نہ کرنے والے عوام اور غریب دوست کمیونسٹوں کی بات کرنا ہے اور دوسری بات کہ ترمیم پسند اور وظیفہ خور کبھی میرا موضوعِ سخن نہیں رہے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply