ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت

ڈرون حملوں کے جواز و عدم جواز پر جو بحث جاری ہے اس میں اکثر اوقات خلط مبحث نظر آتا ہے کیونکہ بحث کرنے والے علۃ القتال، آداب القتال اور فوجداری قانون کے مسائل پر اکٹھے بحث کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ ان تینوں قوانین پر الگ بحث کرنی چاہیے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ڈرون حملوں سے ان ریاستوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ ”علۃ القتال“ (jus ad bellum)کا مسئلہ ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر حملے کی زد میں آنے والی ریاست نے حملہ آور ریاست کو پہلے ہی سے اجازت دی ہو، یا حملے کے بعد صراحتاً یا دلالتاً اس کی توثیق کی، تو خودمختاری کی خلاف ورزی کی بات ختم ہوجاتی ہے، بالخصوص جبکہ دونوں ریاستیں ”دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد“ کا حصہ بھی ہوں!
آداب القتال (jus in bello)کے پہلو سے ڈرون حملوں، کسی بھی حملے، کے جواز یا عدم جواز کے لیے پہلے یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ حملے کسی جنگی کارروائی کا حصہ ہیں کیونکہ آداب القتال کے قانون کا اطلاق صرف جنگ یا مسلح تصادم کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ اس لیے پہلے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ کیا یہ حملے جنگی کارروائی کے طور پر ہوتے ہیں یا ”دہشت گردوں کے خلاف“ کارروائی کے طور پر؟ پہلی صورت میں آداب القتال کے قانون کا، جبکہ دوسری صورت میں فوجداری قانون اور حقوق انسانی کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔
اگر یہ جنگی کارروائی ہے تو آداب القتال کے قانون کی رو سے اس کے جواز کے لیے چار سوالات پر غور کرنا ضروری ہے:
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کارروائی کرنے والوں کو قانوناً جنگ میں شرکت کا حق حاصل ہے؟ بہ الفاظِ دیگر، کیا وہ ”مقاتل“ (combatant)کی شرائط پوری کرتے ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا جنھیں نشانہ بنایا جارہا ہے انھیں نشانہ بنانے کی قانوناً اجازت ہے؟ دوسرے الفاظ میں کیا وہ ”فوجی ہدف“ ہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ جو ہتھیار (ڈرون) استعمال کیا جارہا ہے کیا قانوناً اس کا استعمال جائز ہے یا قانون کے نصوص یا اصولوں کی رو سے وہ ممنوعہ ہتھیاروں میں شمار ہوتا ہے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا حملے کے وقت اور جگہ کے انتخاب میں وہ احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں جو غیر مقاتلین اور دیگر قانوناً محفوظ افراد و املاک کو بچانے کے لیے قانون نے لازمی قرار دیے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ان چاروں پہلووں سے ڈرون حملوں کے متعلق بہت کچھ اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ ڈرون ”آپریٹرز“ عام طور پر ایسی پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم ہوتے ہیں جنھیں سی آئی اے نے کنٹریکٹ دیا ہوتا ہے۔ ان کی مقاتل کی حیثیت اگر ناجائز نہیں تو کم از کم مشتبہ تو ضرور ہے۔ پھر حملے کے اہداف کے متعلق جو اعداد و شمار مختلف ذرائع کی جانب سے سامنے آئے ہیں ان سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام شہریوں اور غیر مقاتلین کی ایک بڑی تعداد ان حملوں کا نشانہ بنتی آرہی ہے۔ ڈرون بطور ہتھیار کے متعلق اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے حملے کو ہدف تک محدود رکھنا آسان ہوجاتا ہے لیکن دوسری جانب تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ جب حملہ کرنے والا میدان جنگ سے دور اور محفوظ ہو تو وہ زیادہ غیرمحتاط ہوتا اور قانون کی پابندی میں زیادہ تساہل برتتا ہے۔ اسی طرح وقت اور جگہ کے انتخاب پر بھی بارہا اعتراضات اٹھتے رہے ہیں۔ اس لیے آداب القتال کے پہلو سے ڈرون حملوں کا جواز غیر یقینی ہے۔
پھر اگر ڈرون حملوں کو ”دہشت گردوں“ کے خلاف فوجداری کارروائی کہا جائے تو مسئلہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کیونکہ فوجداری قانون، اور اسی طرح حقوق انسانی کے قانون، کی رو سے ان حملوں کے اہداف ”مجرم“ نہیں بلکہ ”ملزم“ ہیں جب تک ان کا جرم عدالت میں باقاعدہ کارروائی کے بعد، اور ان کو صفائی کا موقع دینے کے بعد، ثابت نہ کیا جائے۔ اس قسم کی کارروائی کے بغیر انھیں ڈرون حملوں کے ذریعے مارنا قانوناً ”قتل“ ہے۔ اسی بنیاد پر مشہور امریکی دانش ور نعوم چومسکی انھیں ”ماوراے عدالت قتل“ (extra-judicial killing)قرار دیتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply