• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فقہاء کی ترجیحات اور انسانوں کے حقیقی مسائل، میلادِ مسیح کے تناظر میں۔۔مفتی امجد عباس

فقہاء کی ترجیحات اور انسانوں کے حقیقی مسائل، میلادِ مسیح کے تناظر میں۔۔مفتی امجد عباس

 یورپ سے آئے، ایک پاکستانی سکالر نے ہمیں ایک بار بتایا کہ وہ یورپ میں جہاں بھی گئے ہمارے لوگ یہی پوچھتے ہیں کہ یہاں گوشت کھا سکتے ہیں؟ یورپ میں بسنے والے مُسلمانوں کی نظر میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ ہمارے ہاں رائج مذہبی سوچ کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا۔

اِسی طرح یورپ میں ایک مذہبی سنٹر کے سربراہ پاکستانی عالم نے ایک نشست میں بتایا تھا کہ یورپ میں مسلمان خواتین کا بڑا مسئلہ “حلالہ” کا ہے (بظاہر اس مسئلہ کا شکار ایک مجلس میں تین طلاقوں کے قائل حضرات ہیں)۔ اُنھوں نے بی بی سی لندن کی اِس حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ سے پہلے ہی بتادیا تھا کہ وہاں حلالہ سنٹر اور “شرعی” خلع دلوانے کے سنٹر بنائے جا رہے ہیں۔ ایک بار ہماری یونیورسٹی میں ایک مذہبی سکالر نے عربی اور اسلامیات کے شعبہ کے طلبہ  کو لیکچر دیتے ہوئے فرمایا کہ جامعات کے علومِ اسلامی کے شعبے نئے مسائل پر تحقیق نہیں کروا رہے۔

بندہ نے عرض کیا کہ مدارسِ دینیہ سے عام طور پر چھپنے والی کتب کا پسندیدہ موضوع “آمین بالجہر کا اثبات”، “بیس رکعات تراویح کی شرعی حیثیت”، “داڑھی منڈوانے والے کی امامت کا مسئلہ”، “فضائلِ صحابہ”، “فضائلِ اہلِ بیت” جیسے مسائل ہوتے ہیں۔ اسلام میں سب سے زیادہ زور ایمان باللہ، اخلاقیات اور انسانوں کے حُسنِ روابط پر دیا گیا ہے۔ آج پوری انسانیت کو بڑے بڑے مسائل درپیش ہیں، آج ملکوں کے مُلک تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے 2015ء میں ہونے والے سترہویں اجلاس سے مسیحی پوپ فرانسس نے خطاب کرتے ہوئے معاصر مسائل کا یُوں تذکرہ کیا:

” طاقت اور دولت جمع کرنے کی بے مہار ہوس کے ہاتھوں قدرتی وسائل کی بُری طرح سے پامالی کمزور طبقات کو مسلسل کونے میں دھکیل رہی ہے ۔ ماحولیاتی بربادی انسانی بقا کے لئے اب ایٹمی ہتھیاروں سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ ریاستیں اپنے لوگوں کو چھت، روزگار اور زمین ہی دے دیں تو بڑی بات ہوگی۔ مساوات کا خواب تب تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک عالمی ساہوکار ادارے کرپشن سے پاک پائیدار ترقی میں مدد کرنے کے بجائے قرضوں کے موجودہ استحصالی نظام سے چمٹے رہیں گے۔ ایسا ہوئے بغیر غربت، کمزور طبقات کی لاچاری اور محتاجی کم نہ ہوگی۔”

یہ ہیں آج کے اصلی زندہ مسائل۔ آج کُتبِ فتاویٰ کو اُٹھائیے، مفتی صاحبان سے پوچھیے، وہ انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق چند عبادتی مسائل اور بعض معاملات کو ہی بیان کرتے ہیں۔ کیا ہمارا اسلام یہی ہے؟ کیا چند عبادات اور چند معاملات (از قبیل نکاح، طلاق، زکوٰۃ، میراث) کے ضوابط کا نام ہی اسلام ہے! کیا عدل و انصاف، انسانی اخلاقیات، معاشرتی ترقی، بہتر نظامِ حکومت، انسانیت کے لیے مفید نظامِ معیشت اور ماحولیاتی تبدیلیوں نیز اِن جیسے معاملات کے متعلق دین رہنمائی نہیں کرتا؟ اگر کرتا ہے تو اِس پر لکھا کیوں نہیں جاتا؟ لکھا گیا ہے تو عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ عمل بھی کیا جاتا ہے تو آج دین کے نام لیوا معاشروں کی اکثریت ہی زوال کا شکار کیوں ہے؟ آج مدارسِ دینیہ کے بہت سے اساتذہ کیوں اپنے مہتمم سے مطمئن نہیں؟ آج دینی طُلاب کی ایک بڑی تعداد دینی مُعلموں سے کیوں متنفر ہے؟ آج کیوں زیادہ تر لوگ، علماء پر، جو وارثِ انبیاء کہلاتے ہیں، اعتماد کرنے کو آمادہ نہیں! خلافت کے نام پر قائم حکومتیں کیوں عدل و انصاف پر مبنی اچھا معاشرہ تشکیل نہ دے سکیں۔

ماضی قریب میں جائیے تو اورنگ زیب عالمگیر جیسے بادشاہ نے فتاویٰ کو مرتب کروا دیا لیکن برصغیر کو کوئی منظم نظامِ تعلیم، نظامِ صحت نہ دے سکا! کب تک ہمارے فقہاء کی توانائیاں معمولی معمولی مسائل میں صرف ہوتی رہیں گی اور بڑے بڑے مسائل انسانیت کو تباہ کر کے رکھ دیں گے۔ آج بھی ہماری ابحاث میں مخلوط تعلیم کی شرعی حیثیت، طہارت کے طریقے، بیویوں کو بقدرِ حاجت مارنے کے جواز، آمین بالجہر کہنے نہ کہنے، رفع یدین کرنے نہ کرنے، تصویر کے جواز و عدمِ جواز، صحابہ کے دشمنوں کے تعین، اہلِ بیت کے دشمنوں کی تشخیص، ماضی کے واقعات کی کھوج، بینک میں کھاتہ کھلونے کا جواز و عدم جواز، داڑھی کی مقدار کے تعین جیسے مسائل نمایاں ہیں۔ آپ کسی مفتی/فقیہ کے پاس جائیے، کسی دینی مدرسہ کا چکر لگائیے، اُن سے آج انسانیت کو درپیش مسائل کا پوچھیے، پھر اندازہ لگانا کہ حضرت کس دنیا کے باسی ہیں۔ وہ آج سے چودہ سو سال پہلے کے زمانے میں رہ رہے ہیں، اُن کی تمام تر اصطلاحات اور پیمانوں کا تعلق ماضی سے ہے، وہ آج بھی چودہ سو سال پہلے کے پیمانے بتائیں گے، وہ آج بھی کوڑے کو بطورِ سزا اور صاع کو بطور پیمانہ تجویز کریں گے۔

ہماری فکری زبوں حالی کا یہیں سے جائزہ لگائیے کہ امام کعبہ کہتے نظر آتے ہیں کہ صحابہ کے دشمنوں سے دوری اختیار کیجیے۔ وہ انسانیت کے دشمنوں سے دوری کا نہیں بولتے، وہ ظلم، دہشت گردی، قتل، فراڈ، دھوکے اور ایسے جرائم کو اپنانے والوں سے دوری کا نہیں کہتے۔ آج بھی ہماری محبت، دشمنی کا معیار مسلکی افکار و عقائد ہیں، اعمال نہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے میں یہودی علماء و فریسیوں (مذہبی سیاست دانوں) کی یہی کیفیت تھی، وہ دین کے نام پر چند ظواہر پر عمل پیرا تھے، تب آپؑ سے نقل کیا گیا ہے کہ فرمایا:

اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تُم پر افسوس! کہ پودِینہ اور سونف اور زِیرہ تو دہ یکی (عُشر کی طرح کی ادائیگی) دیتے ہو پر تُم نے شَرِیعَت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی اِنصاف اور رحم اور اِیمان کو چھوڑ دِیا ہے۔ لازِم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے (23)

اَے اَندھے راہ بتانے والو جو مچھّر کو تو چھانتے ہو اور اُنٹ کو نِگل جاتے ہو (24)

اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تُم پر افسوس! کہ پیالے اور رِکابی کو اُوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اَندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں (25)

اَے اَندھے فرِیسی! پہلے پیالے اور رِکابی کو اَندر سے صاف کر تاکہ اُوپر سے بھی صاف ہو جائیں(26)

اَے رِیاکار فقِیہو اور فرِیسیو تُم پر افسوس! کہ تُم سفیدی پھِری ہُوئی قَبروں کی مانِند ہو جو اُوپر سے تو خُوبصُورت دِکھائی دیتی ہیں۔ مگر اَندر مُردوں کی ہڈیّوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں (27) (متی کی انجیل: باب 23)

اے فقیہانِ اُمت! کیا آج ہم سب آگاہ نہیں کہ ہم قربانی کی کھالیں نہ دینے والوں کو سخت وعیدیں سُناتے ہیں لیکن خود کُش بمبار کی کُھل کر مذمت نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرا جاتا ہے لیکن سیرت طیبہ پر عمل نہیں کیا جاتا۔ کیا وجہ ہے کہ دار الافتاء میں سبھی سوالوں کے تسلی بخش جوابات دیئے جاتے ہیں لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کے سوالات تشنہءِ جواب رہے۔ آج مسلمانی کی علامت داڑھی، ٹوپی، نماز و روزہ ہیں، امانت و دیانت کیوں نہیں ہیں۔ آج سادہ دل مُسلمانوں کو اہلِ مذہب کی بد اخلاقی کی شکایت عام ہے۔ آج پوری دنیا مذہبی دہشت گردی کا رونا رو رہی ہے۔ آج وطنِ عزیز پاکستان میں “اللہ اکبر” کی صدا کے ساتھ خودکُش بمبار پھٹتا ہے۔ آج لوگ مساجد اور دینی پروگراموں سے ڈرتے ہیں۔ سچ بتائیے آج انسانیت کو درپیش کون سے چیلنجز ہیں اور ہماری ترجیحات کیا ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

جیسا کہ آج ہمارے علماء و مفتیوں کی بڑی تعداد، آج کے زندہ مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، کرپشن، دہشت گردی وغیرہ کو نظر انداز کیے ہے اور چند مخصوص عبادات و معاملات کو ہی توجہ کا محور قرار دیئے ہے، حضرت عیسیٰ مسیحؑ کے زمانے میں یہودی علماء کا یہی حال دیکھ کر آپؑ نے اُنھیں حقیقی انسانی مسائل اور روحِ دین کی طرف متوجہ کیا، “میلادِ مسیح” کی مناسبت سے ہمیں بحیثیتِ مسلمان، انسانوں کے حقیقی مسائل کو روحِ دین کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔

Facebook Comments

امجد عباس، مفتی
اسلامک ریسرچ سکالر۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply