• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط3

موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط3

درج بالا سطور کھلی آنکھوں خواب دیکھنا محسوس ہو رہا ہو گا۔پہلے اسکی وجہ جان لیتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ مولانا نے ساری زندگی بہت محتاط کھیلا ہے۔انھوں نے خطرہ مول لینے سے ہمیشہ اجتناب ہی برتا ہے۔اب انھوں نے اچانک اپنے لیے تخت یا تختہ کی صورتحال پیدا کر لی ہے۔ہو سکتاہے کہ عام تاثر کے عین مطابق انہیں شہ دی گئی ہو۔اس کا بھی امکان ہے کہ انہیں اپنے سیاسی دوستوں نے آگے لگایا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی حلقۂ اثر کے دباؤ میں نکلنے پر مجبورہوئے ہوں۔وجہ کوئی بھی ہو اس تحریک کی ناکامی نہ صرف مولانا کی سیاست کاخاتمہ کر دے گی بلکہ انکے مکتبۂ فکر کےلئے بھی شدید مضر ثابت ہو گی۔

اس صورت میں اہل مذہب کو نماز روزےاور کفنانے دفنانے تک محدود کر دینے کی کوشش بھی ہو گی۔اگر یہ تحریک سیاسی مقاصد کےحصول کی حد تک کامیابی حاصل کر بھی لیتی ہے، جس کا نتیجہ سول سپریمیسی کی صورت میں سامنے آیا، تب بھی مولانا کی محنت کا پھل بڑی پارٹیوں کی جھولی میں گرے گا۔مولانا کے حصےمیں چھوٹی موٹی وزارت ہی آ سکے گی۔پھر تھوڑے ہی عرصے بعد مولانا بھی عوام میں غیرمقبول ہوتے چلے جائیں گے۔ جماعت اسلامی پہلے ہی اس عمل سے گزر کر غیر موثر ہو چکی ہے۔چنانچہ دینداروں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ دستور کی اسلامی دفعات کو غیرموثر کیا جائے گا،ختم نبوت کی دفعہ حذف کی جائے گی، توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کیا جائےگا اور قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی حیثیت کو بھی ختم کر دیا جائیگا۔ مدارس سرکاری تحویل میں لیے جائیں گے۔ مساجد پر بھی سرکاری کنٹرول ہو گا۔ گورنمنٹ کی طرف سے لکھا خطبہ ہی پڑھنے کی اجازت ہو گی۔فوج کا کردار بالکل محدود رہ جائیگا۔اقامت دین کا تصور پیش کرنا بغاوت کہلائے گا۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ “قرآنی تبلیغی جماعت” بن کر بچاؤ ہو جائیگا تو یہ اسکی خام خیالی ہے۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مولانا کی تحریک کے نتیجے میں ایک سیکولر جمہوری نظام مستحکم ہو گا۔ اس نظام کے تحت جو حکومت قائم ہو گی اس نے بھی موجودہ ایجنڈے ہی کوآگے بڑھانا ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو ہمارا ملک بھی زیادہ عرصہ اپنی سالمیت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔امریکی منصوبے کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔اس سے مسلمانان ہند کی ڈیڑھ  صدی کی جدوجہدناکامی سے دوچار ہو جائے گی۔ یہ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی سے بھی بڑی ناکامی ہو گی۔اسکے اثرات بھی نہایت تباہ کن نکلیں گے۔

جب اتنا ہولناک منظر سامنے آتا ہے تو امید قائم رکھنامشکل ہو جاتا ہے۔ دائیں بائیں نظریں اٹھتی ہیں تو ہر شاخ پے الو ہی بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔ڈوبتے کو تنکا بھی سہارا نظر آتا ہے۔جبکہ مولانا اگر اپنی منزل سچ مچ اسلام کو بنا لیں تو وہ ملت اسلامیہ ہند کےلیے لنگر ثابت ہو سکتے ہیں۔انھیں حدود و قوانین کی بجائے نظامِ عدل اجتماعی پرزور دینا ہو گا۔ اس سے عوامی جذبات کا رخ مولانا کی طرف مڑتا چلا جائے گا ۔وہ لوگوں کےدل کی آواز بن جائیں گے۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کےلئے اپنے اتحادیوں میں سے پیپلزپارٹی، نون لیگ اور اے این پی کی قیادت کو اعتماد میں لے کر معاشی عدل کی اہمیت اجاگر کرنی ہو گی۔پھر چارٹر آف ڈیموکریسی کی طرح معاشی اصلاحات کرنے کا میثاق بھی تسلیم کروانا ہو گا۔یہ محض نعرہ نہ ہو بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دل و جان سے کام کیا جائے تو اس تحریک کا پھل بھی کسی اور کی بجائے مولانا ہی کی جھولی کی رونق بڑھائے گا۔

اس صورت میں عوام کامرکز نگاہ کوئی اور راہنما نہیں ہو گا بلکہ مولانا ہی کے نعرے “وجن” گے۔ وہ اس قوم کےلئےماؤزے تنگ کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ بھٹو جیسی مقبولیت انکی منتظر ہوگی۔ کوئی دوسرا راہنما ان کے آگے دم نہیں مار سکے گا۔ علماء کے ہاتھ سے جو امامت نکل گئی تھی دوبارہ ان کے پاس آ جائے گی۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ مولانا اسلام آباد نہیں آئے ہیں بلکہ ایک ایسے دوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے ایک راستہ تخت تک لے جاتا ہے تو دوسرا تختے پرپہنچاتا ہے۔ستم یہ ہے کہ یہ صرف انکی تقدیر ہی نہیں ہے بلکہ جو انکی تقدیر ہو گی وہی اب ہم سب کی بھی ہو گی۔

یہ وہ صورتحال ہے جو جاگتی آنکھوں خواب دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔جو لوگ اس تحریک کو اس ا  نداز میں نہیں دیکھ پاتے وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے اطمینان سے ہیں۔ وہ اس تحریک کو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن وہ سخت غلطی پر ہیں۔ آج کے تماشائی کل تماشا بننے والے ہیں۔ابھی اگر اس کا احساس نہیں ہو رہا تو بہت جلد کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہےگا۔

مولانا سے امید باندھنا نرا خواب دیکھنا نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ اسباب بھی ہیں۔مولانا پاکستان کی سب سے بڑی اور موثر سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔انکے کارکن جان دینے کی لگن سےسرشار ہیں۔ وہ سیاسی حرکیات، زبان و بیان کی باریکیوں، مذاکرات کی نزاکتوں اور اقتدار کی راہداریوں کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھنے والے وقت موجود کے واحد مذہبی راہنما ہیں۔انھیں سیاسی جماعت کے علاوہ انصار الاسلام کی صورت میں ایک مضبوط تنظیم کی خدمات بھی حاصلِ ہیں۔ یہ ساری خصوصیات مل کر انہیں وہ اسباب مہیا کرتی ہیں جو کسی تحریک کی کامیابی کےلئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔بس مولانا کے دل میں وہ سودا سما جانے کی دیر ہے۔ حالات سازگار ہیں، اسباب وافر ہیں اور مٹی بھی زرخیز ہے۔

یہ آشکارا ہے کہ اس تحریک کے ذریعے خواہ سول سپریمیسی کی منزل حاصل کی جائے یا اسلامی نظام عدل برپا ہو، دونوں ہی صورت میں تصادم کا اندیشہ ہو گا۔کوئی اپنی سپریمیسی چھوڑنےکےلئے تیار نہیں ہوتا۔ کوئی ظالم ٹھنڈے پیٹوں عدل قائم نہیں ہونے دیتا۔ ہمارا دشمن جس نےچاروں طرف سے ہمارا گھیراؤ کر رکھا ہے وہ نہ صرف اس وقت کا عرصے سے منتظر ہے۔ بلکہ پہلے بھی کوشاں رہا ہے کہ تصادم کی کوئی صورت بن جائے۔ وہ لازماً ٹکراؤ کرانے کی کوشش کرے گا۔ یہ غنیمت ہے کہ مولانا کے پاس ہجوم کو کنٹرول میں رکھنے والی تنظیم انصار الاسلام موجود ہے جس نے تاحال مجمعے کو عمدگی سے ڈسپلن میں رکھا ہوا ہے۔ البتہ اس معاملے میں حکومت کو بھی پورا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تصادم سے ہر ممکن گریز کی کوشش کی ہے۔ تاہم جانبین کا اصل امتحان تب ہو گا جب کوئی ایک تشدد کا حربہ آزمانے کی کوشش کرے گا۔ یہ مقتدرحلقوں کی بصیرت کا بھی امتحان ہو گا۔ ملک جن خطرات میں گھرا ہوا ہے، معاشی بد حالی کی جوکیفیات ہیں اور خطے کے بدلتے حالات جو منظر پیش کر رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ گفت وشنیدسے معاملات حل کر لیے جائیں۔ محب وطن حلقوں کےلئے مولانا وہ موزوں ترین شخصیت ہوسکتے ہیں جن کے سر پر سول سپریمیسی کا تاج رکھا جائے تو ان خطرات کا اندیشہ نہیں ہو گا جن کاخطرہ کسی اور سے ہو سکتا ہے۔پھر اگر مولانا کی قیادت میں معاشی عدل کی طرف سفر کا آغاز ہوتاہے تو ہر ادارے کی ساکھ بھی بہتر ہوتی چلی جائے گی۔ قومی سیاسی قیادتوں کو بھی عملیت پسندیکا مظاہرہ کرتے ہوئے سوچنا چاہیئے کہ مقتدر حلقوں کو ان سے جو تحفظات ہیں ان کی موجودگی میں مولانا سب کےلئے بہتر چوائس ثابت ہو سکتے ہیں۔

لہذا تمام سٹیک ہولڈرز تصادم سے گریز کواولین ترجیح دیتے ہوئے نئے قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کر لیں گے تو کسی دشمن کو حالاتسے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ الغرض مولانا کےلئے جہاں تختے والی صورتحال ہےوہاں تخت کا بھی امکان ہے۔ مگر اس کےلئے انہیں اپنی سیاسی کینچلی اتارنی ہو گی۔ قدرت نےاس سے پہلے بھی انہیں مواقع دیے جن سے انھوں نے محض سیاسی فائدے اٹھانے ہی پراکتفاء کیا۔ یہ انکےلیے آخری موقع ہے۔ وہ چاہیں تو حسین احمد مدنی رح کی سیاسی غلطی کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس عبیداللہ سندھی کے معاشی نظریات کی ترویج کا موقع ہے۔ وہ اسملک کے امام خمینی بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنی سیاسی ضرورتوں ہی کے قیدی رہے تو انہیں اس کا موقع نہیں ملے گا کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم پاکستان بنانے کی غلطی میں شریک نہیں تھے۔ ان پرقدرت کا بہت بڑا قرض ہے۔ انھوں نےپرویز مشرف کے افغان طالبان سے یو ٹرن لینے کےنتیجے میں پیدا ہونے والے ردعمل کو کنٹرول کرنے میں حکومتی حکمت عملی پر چل کر اسے دباؤ سےنکالنے میں تعاون کیا حالانکہ اس موقع کو نفاذ اسلام کےلئے بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ بلکہ اسصورتحال کا سیاسی فائدے اٹھاتے ہوئے کے پی کے میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔انھوں نے کتاب کے نام پر ووٹ لیکر حقوق نسواں بل پاس کرایا تھا۔ پرویز مشرف کو وردی میں منتخب ہونے کا موقع دیا ۔ سانحہ لال مسجد میں غفلت برتنے کا ارتکاب کیا۔ بہت سی ناگفتنیاں ہیں جو کہنے کا فائدہ نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ سمجھ لینا چاہیئے کہ قدرت کی طرف سے یہ آخری موقع ہے۔ حالات بھی تخت یا تختہ کی نشاندہی کر رہے ہیں اور اتمامِ حجت کا خدائی قانون بھی اسی طرف نشاندھی کر رہا ہے۔ آپ ویسے بھی زندگی کی اننگز کھیل چکے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں قدرت کا یہ موقع عنایت کرنا قدرت کی خاص عنایت ہے۔ جو آپ کے بزرگوں کی خدمات کی وجہ سے آپ کو میسر آیا ہے۔ آپ چاہیں تو اسے اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں اوراسے ضائع کر دینے کی صورت میں اپنے اسلاف کےلئے اللٰہ کے ہاں شرمندگی کا ذریعہ بھی بنا سکتےہیں۔ فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم۔

موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط1

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط2

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply