کراچی، گوادر اور بلوچستان۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

کراچی اور گوادر کی ملکیت پر دو مختلف موقف ہمیشہ سامنے آتے رہتے ہیں ـ ان دو بیانیوں کا مختصر جائزہ اس چھوٹی سی تحریر کا مقصد ہے ـ۔

بلوچ قوم پرستوں کی اکثریت کراچی کو بلوچستان کا حصہ سمجھتی ہے ـ ان کے مطابق کراچی کو سندھی حکمرانوں نے زبردستی بلوچستان سے علیحدہ کرکے سندھ کا حصہ بنایا ـ قوم پرست پرعزم ہیں کراچی کو ایک دن ضرور دوبارہ بلوچستان کا حصہ بنایا جائے گا ـ۔

گوادر کے حوالے سے پاکستان کے پڑھے لکھے افراد بالخصوص دانش وروں کا ماننا ہے اس شہر پر بلوچ حقِ ملکیت نہیں رکھتے ـ ان کے مطابق گوادر کو پاکستان نے سلطنتِ عمان سے خریدا ہے لہذا بلوچوں کا اس پر دعوی بے بنیاد ہے ـ۔۔

دونوں خیالات کا فرداً فرداً مختصر جائزہ لیتے ہیں ـ

کراچی:

تاریخ بتاتی ہے کراچی کبھی بھی بلوچستان کا حصہ نہیں رہا ـ اٹھارویں صدی کے اوائل میں ریاستِ قلات کے حکمران کا بھائی سندھ کے کلہوڑہ حکمرانوں کے ہاتھوں مارا گیا ـ دو طرفہ جنگ سے بچنے کے لئے افغانستان کی ثالثی میں کراچی کو ایک مدت کے لئے بطورِ خون بہا بلوچ ریاست کے حوالے کیا گیا ـ اٹھارویں صدی کے اواخر میں تالپوروں (ویسے درست املا “ٹال بُر” ہے یعنی شاخیں کاٹنے والا) نے کلہوڑہ اقتدار پر قبضہ کرکے سندھ پر اپنی حاکمیت قائم کرلی ـ تالپوروں نے کراچی کو دوبارہ سندھ کا حصہ بنانے کے لئے فوجی کارروائی کی، ریاستِ قلات کے حکمرانوں کو سمندر میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی اس لئے انہوں نے بس واجبی دفاع پر ہی اکتفا کیا ـ تالپور بڑی آسانی سے کراچی پر قابض ہوگئے ـ۔

ریاستِ قلات نے قبضے کے بعد نہ صرف اس کی واپسی کے لئے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ عملاً وہ اپنے اقتدارِ اعلی سے بھی کاملاً دست بردار ہوگئے ـ اب صدیوں بعد کراچی کی ملکیت کا دعوی کسی پرجوش قوم پرست کی ذاتی اور یوٹوپیائی خواہش تو ہوسکتی ہے، حقیقت نہیں ـ۔

گوادر:

1784 کو سلطنت عمان کے امیر، سعید بن احمد کی اپنے بھائی سلطان بن احمد سے لڑائی ہوگئی ـ سلطان بن احمد کی پوزیشن کمزور تھی اس لئے وہ پناہ کی تلاش میں بلوچستان بھاگ آئے ـ ریاستِ قلات نے شہزادے کو پناہ دے کر گزر بسر کے لئے اسے گوادر کا علاقہ دے دیا ـ گوادر کی حوالگی محض مہمان کے گزربسر کی حد تک تھی، ریاست نے اپنا اختیار نہیں چھوڑا تھا ـ اسی صدی کے اواخر میں قریب 1797 کو شہزادے نے فوج اکھٹی کرکے عمان پر چڑھائی کردی اور سلطنت پر قبضہ کرلیا ـ کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کے باوجود سلطان بن احمد نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ـ قلات نے سلطنت عمان سے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کیا مگر سلطان ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ـ والیانِ قلات ایک تو سمندر کی اہمیت سے ناواقف تھے اور دوسرا اسی دوران انگریز بھی گلے پڑے گئے، نتیجہ گوادر کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا تاہم ریاست قلات گوادر پر اپنے اختیار سے دست بردار نہ ہوا ـ کیچ مکران کے قبائل نے اس دوران گوادر پر قبضہ کرنے کی بھی کوشش کی مگر یہ کوشش ناکام رہی ـ۔

بیسویں صدی کے اوائل میں گوادر کے شہریوں نے سلطنت عمان کی ناجائز قبضہ گیری کے خلاف تحریک شروع کردی ـ 1958 کو وزیراعظم پاکستان ملک فیروز خان نون، وفاقی وزیرِ داخلہ نواب اکبر خان بگٹی و دیگر نے برطانیہ کو ثالث بنا کر مزاکرات کے ذریعے گوادر کو سلطنت عمان کے اختیار سے لے کر بلوچستان میں شامل کردیا ـ پاکستانی حکومت کی جانب سے سلطنت عمان کو تین ملین ڈالر ادا کئے گئے جو اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا آغا خان نے برداشت کئے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلوچ ریاست نے کبھی بھی گوادر پر اپنا اختیار نہیں چھوڑا اور نہ ہی بلوچوں بشمول گوادر کے شہریوں نے سلطنتِ عمان کا اقتدار قبول کیا ـ ایسے میں پاکستانی دانش وروں کا یہ کہنا کہ گوادر کو پاکستان نے خریدا ہے اس لئے بلوچ اس پر حقِ ملکیت نہیں رکھتے حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ـ جلد یا بدیر عمان کو یہ قبضہ ختم کرنا ہی تھا، خوش قسمتی سے یہ کریڈٹ ملک فیروز خان نون کو مل گیا ـ۔

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply