عزت کرو ورنہ سزا بھگتو۔۔بریگیڈئیر بشیر آرائیں

1984 میں چترال اسکاؤٹس میں میری پوسٹنگ ہوگئی   ۔ کرنل مراد خان نیر کمانڈنٹ تھے ۔ دروش پہنچا تو پتہ چلا پوری وادی میں ان کا طوطی بولتا ہے ۔ وہ ہر قصبے ہر گاؤں میں لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے ۔ پہلے انٹرویو میں ہی کہنے لگے کہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے تم میرے ساتھ ہر جگہ اور ہر گاوں چلا کرو گے تاکہ اگر کہیں لوگوں کی صحت کے مسائل  ہوں تو مجھے بتاو اور ہم انکی مدد کرسکیں ۔

ہم ایک شادی کی دعوت میں شریک ہونے ایک گاؤں میں گئے  ۔ گاؤں سے 200 گز پہلے جیپ پارک کردی کیونکہ راستے میں پہاڑوں سے پانی کا نالہ آتا تھا اور جیپ نہیں جاسکتی تھی ۔ ہمیں پانی کے بیچ سے گزر کر جانا تھا ۔ کمانڈنٹ لوگوں سے مل رہے تھے تو میں نے اپنی وردی کی شلوار اوپر چڑھالی اور چپل اتارنے لگا ۔ مجھے صوبیدار میجر فاروق جان نے کہا کہ سر یہ لوگ اپنے ہاتھوں کا جھولا بنا کر آپکو اس میں بٹھا کر پانی سے پار لیکر جائیں گے ۔ میں کہا میں ایسا کیوں کرونگا ۔ میرے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ۔ کہنے لگا سر یہاں کے لوگ کہتے ہیں فوجی ہمارے ملک کے محافظ ہیں ۔ یہ فوج سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار اسی طرح کرتے ہیں ۔ میں حیران و پریشان دو چترالی نوجوانوں کے ہاتھوں کے جھولے میں نالہ پار کر رہا تھا اور کرنل مراد خان نیر بھی ہنستے ہوئے اسی طرح میرے پیچھے آرہے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا یا اللہ خاکی وردی والوں سے قوم کی یہ کیسی محبت ہے کہ نالے میں ہمارے پاؤں بھی بھیگنے نہیں دیتے ۔

1987 میں سندھ پر ڈاکوؤں کا قبضہ ہوتا جارہا تھا اور اسکا قلع قمع کرنے کو ایس ایس جی کا ہیڈ کوارٹر چراٹ سے نوابشاہ پہنچ گیا ۔ ایس ایس جی کمانڈوز سندھ میں ہر کونے کھدرے میں ڈاکووں کا پیچھا کر رہے تھے ۔ فورس کمانڈر برگیڈیر ٹی ایم خان نے 16 ڈویژن پنوں عاقل سے سندھی اسپیکنگ ڈاکٹر مانگ لیا تاکہ میڈیکل کوَر کے ساتھ ساتھ وہ ایس ایس جی فورس اور مقامی لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فراٸض بھی انجام دے ۔ میں ان دنوں 33 فیلڈ میڈیکل یونٹ روہڑی سیمنٹ فیکٹری میں تھا ۔ نوابشاہ کا رہاٸشی ہونے کے ناطے میری ایس ایس جی کے ساتھ ڈیوٹی لگ گئی  ۔

پلان بنا کہ سارا دن ڈاکوؤں کا پیچھا کیا جائیگا اور جہاں رات ہوگی آبادی اور گوٹھوں سے ذرا دور ہی اپنی جیپیں اور ٹرک روک کر انہی میں بستر بچھا کر رات گزارا کرینگے ۔ دوسری رات مورو سنہری فارم کے قریب پڑاو ہوا ۔ شام کا وقت تھا ۔ ہم تقریباََ 50 لوگ تھے ۔ باورچی لکڑیاں جلا کر کھانا بنانے لگا اور جوانوں نے زمین پر اور ٹرکوں پر بستر بچھانے شروع کر دیے ۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کی قریب کی گوٹھ سے لوگ بیل گاڑیوں پر چارپاٸیاں اور کندھوں پر پانی کے مٹکے لیکر پہنچ گئے ۔ مجھے کمپنی کمانڈر نے کہا کہ ان سے کہو یہ تکلیف نہ کریں ۔ گوٹھ کے کچھ لڑکے پڑھے لکھے بھی تھے ۔ اس لیے مجھے سندھی بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑی اور وہ کمپنی کمانڈر سے خود ہی مخاطب ہوئے  کہ یہ تکلیف نہیں ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ ہمارے گاؤں میں رات گزاریں گے ۔ آپ ہماری شان ہیں ۔ آج ہمیں خدمت کا موقع دیں ۔ ہم سب تھکے ہوئے  تھے چارپائیوں پر رلیاں بھی بِچھ گئیں ، اور ہم مزے سے سو گئے مگر زیادہ حیرت صبح اس وقت ہوئی جب سورج نکلتے ہی 50 لوگوں کا لسی مکھن والا دیسی ناشتہ بھی پہنچ گیا ۔ اندرونِ سندھ اس علاقے میں فوجی پہلی دفعہ دکھائی دے رہے تھے اس لیے لوگ شوق در شوق دور سے کھڑے ہمیں ہاتھ ہلا رہے تھے ۔ کمپنی کمانڈر نے سب کو بلاکر ان سے ہاتھ ملانا شروع کیا تو ان کے چہروں پر محبت اور خوشی دیدنی تھی ۔

یہ 1987 کی باتیں ہیں ۔ اب 2021 میں ایک صدارتی آرڈیننس آنے کا سن رہے ہیں کہ اگر کوٸی شخص فوج کی عزت نہیں کریگا تو اسے لاکھوں روپے جرمانہ ہوگا اور دوسال سزا بھی الگ سے کاٹنی ہوگی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں ذاتی تجربوں کی روشنی میں بھی یہ فیصلہ نہیں کر پارہا کہ پاکستانی قوم بدل گئی  ہے یا پاکستانی فوج ۔ چترال اسکاؤٹس کے کرنل مراد خان نیر اور ایس ایس جی کمانڈر برگیڈئیر  ٹی ایم خان کو آواز دیکر دیکھنا چاہیے ۔ شاید وہی دلوں میں جھانک کر بتا سکیں کہ گڑبڑ کہاں ہوئی ہے ۔ قصور کس کا ہے کہ اب عزت کروانے کو صدارتی آرڈیننس لانا پڑ گیا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply