• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل۔جناب ایوب خاں کا کردار۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم /قسط3

پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل۔جناب ایوب خاں کا کردار۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم /قسط3

پاکستان کے پہلے آئین کے تیسرے اہم کردار پاکستان کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف جناب ایوب خاں تھے۔ محمد ایوب خان 14 مئی 1907 کو  ہر پور ہزارہ کے ایک گاؤں ریحانہ میں ایک ہندکو اور پشتو بولنے والے خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد میر داد خاں کی دوسری بیوی کے پہلے بیٹے تھے۔ ایوب خان کے والد میر داد خان رسالدار میجر تھے۔ آپ نے 1922 میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ لیکن تعلیم مکمل نہ کی کیونکہ اس دوران میں آپ نے رائل اکیڈمی آف سینڈہسٹز میں داخلہ لے لیا تھا۔
جنگ عظیم دوم میں برما کے محاذ میں شرکت کی۔۔ گوگل پر ریسرچ کریں تو اس سلسلے میں لکھا آتا ہے، اس ضمن میں برٹش کامن ویلتھ آفس کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں ایک نوٹ یہ بھی شامل ہے کہ برما میں لیفٹیننٹ کرنل ڈبلیو ایف براؤن کی ہلاکت کے بعد ان کے نائب لیفٹیننٹ کرنل ایوب خان کو رجمنٹ کی کمان سونپی گئی لیکن جنگی حکمتِ عملی میں بزدلانہ ناکامی کے سبب ان سے کمان واپس لے کر لیفٹیننٹ کرنل ہیو پیئرسن کے حوالے کردی گئی اور ناقص کارکردگی پر ایوب خان کی ملازمت سے چھٹی کرنے کی بھی سفارش کی گئی۔ ۔ قیام پاکستان کے وقت فوج کے دسویں سینئر افسر تھے جلد ہی آپ کو برگیڈئیر بنا دیا گیا اس وقت پاکستان میں سیکرٹری دفاع جناب سکندر مرزا تھے جن سے جلد ہی آپ کی گہری دوستی کا آغاز ہوا۔ ان کے ذریعے وزیر خزانہ جناب ملک غلام محمد سے بھی رابطہ اور تعلق بنا اور تینوں نے مل کر اندازہ لگایا کہ پاکستان کو ایک مضبوط قیادت اور نجات دہندہ کی ضرورت ہے، یہ سیاست دان اس قابل نہیں ہیں کہ وہ ملک کو چلا سکیں۔ اور پھر 1948 میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔

قائد اعظم گہری سیاسی بصیرت رکھتے تھے، ایوب خان نے مارشل لاء  کاگُل تو ان کے انتقال کے دس برس بعد کھلایا لیکن قائد اعظم قیام پاکستان کے بعد جان گئے تھے کہ یہ فوجی افسر سیاست کے پرائے پھڈے میں بہت ٹانگ اڑاتا ہے۔
سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا: ’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس کومشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔ ‘‘
(بحوالہ ’’ قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل‘‘ از قیوم نظامی)

قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انھیں فوجی سلامی دی گئی تو انھوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا ۔ اس واقعہ کا تذکرہ کسی اور نے نہیں ایوب خان کے معتمد خاص اور ناک کے بال ،الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’’ گوہرگزشت ‘‘ میں کیا ہے۔
انہی دنوں میں فوجی افسر کرنل محمد ایوب خان درپردہ پاکستان کی سیاست میں اپنا راستہ بنا رہے تھے۔ محمد ایوب خان بددیانتی اور 1947ء میں پاکستان کیلئے ناقص کارکردگی دکھانے کے باعث قائداعظم کیلئے ناپسندیدہ شخصیت بن چکے تھے۔ کچھ محققین کے مطابق قائداعظم نے محمد ایوب خان کو ملازمت سے برخواست کرنے کا بھی کہا تھا مگر پہلے اُن کا وزیرستان تبادلہ کر دیا گیا پھر انہیں مشرقی پاکستان جنرل آفیسر کمانڈنگ بناکر بھیجا گیا۔ جب قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر ڈھاکہ گئے تو محمد ایوب خان جی او سی کی حیثیت سے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ قائداعظم انہیں دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ “کیا یہ ابھی تک فوج میں ہیں؟”۔۔۔

انھیں لیفٹیٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پہلے چیف آف جنرل سٹاف جنرل افتخار خان (میجر جنرل اکبر خان کے بھائی) کا نائب بنا دیا گیا۔
جنرل گریسی کے بعد سنیارٹی کے اعتبار سے جنرل افتخار خان کو ہی بری فوج کا پہلا مقامی سربراہ بننا تھا لیکن وہ ایک اعلیٰ عسکری کورس میں شرکت کے لیے انگلستان جاتے ہوئے 13 دسمبر 1949 کو ہوائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ ۔

وزیراعظم لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951ء کو قتل ہوئے جبکہ ٹھیک 9ماہ پہلے یعنی 16 جنوری 1951ء کو انہوں نے ہی ایوب خان کو آرمی کمانڈر انچیف بنایا۔
جنرل گریسی کے سابق اے ڈی سی میجر جنرل ریٹائرڈ وجاہت حسین کے بقول گریسی نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو خبردار کردیا تھا کہ ذرا دھیان رکھنا، ایوب اونچی ہواؤں میں ہے۔

وطن عزیز کے اولین آرمی چیف کے نام کا اعلان ان کی تقرری سے 133دن قبل کردیا گیا تھا۔جب6ستمبر1950 کی رات سرکاری طور پریہ اعلان سامنے آیا کہ گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے میجر جنرل ایوب خان کو پاکستان کی مسلح افواج کا پہلا پاکستانی کمانڈر انچیف مقرر کردیا ہے۔

آپ موجودہ کمانڈر انچیف جنرل سرڈگلس گریسی سےاوائل1951میں اس عہدہ کا چارج لے لیں گے۔جنرل ایوب خان یہ عہدہ اعلان کے 133دن بعد یعنی17جنوری1951 کو سنبھالا۔

گو نئے ملک میں سنیارٹی کے اعتبار سے میجر جنرل اکبر خان سب سے تجربہ کار افسر تھے اور انہوں نے کشمیر کی جنگی منصوبہ بندی میں خاصا اہم کردار بھی ادا کیا لیکن وہ اور جنرل گریسی ایک دوسرے سے خوش نہیں تھے چنانچہ قیادت کا ہما ایوب خان کے سر پر بیٹھ گیا۔
جنرل محمد ایوب خان نے کمانڈر انچیف بننے کے فوراً بعد فروری 1951ء میں میجر جنرل اکبر خان کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا۔ یہ وہی میجر جنرل اکبر خان ہیں جو قائداعظم کی خواہش پر 1948ء میں کشمیر کی جنگ کے انچارج تھے۔ اُس وقت وہ بریگیڈیئر اکبر خان تھے جو ایوب خان سے سینئر بھی تھے۔
جنرل اکبر خان راولپنڈی سازش کیس میں ایک اور میجر جنرل نذیر احمد کے ساتھ ماخوذ ہوئے۔ جب کہ میجر جنرل اشفاق المجید کا نام بھی پنڈی سازش کیس میں ڈالا گیا لیکن پھر نکال دیا گیا۔ مذکورہ تینوں جنرل ایوب خان سے سینئر تھے۔
یہ پاکستان  میں سیاسی اور آئینی عمل کے خلاف محلاتی سازشوں کا عروج تھا جس کے اہم کردار ملک غٖلام محمد، سکندر مرزا اور جناب ایوب خاں تھے۔

اکتوبر 1954 میں محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں حاضر سروس کمانڈر انچیف کو دس ماہ کے لیے وزیرِ دفاع کا قلم دان بھی مل گیا ۔
ملک غلام محمد کے بعد سکندر مرزا کو گورنر جنرل بنانے میں جناب ایوب خاں کی دوستی اور حمایت کا عمل دخل تھا۔

پاکستان کا پہلا آئین تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود منظور کرلیا گیا جو اہم سیاسی کامیابی تھی مگر یہ بات سکندر مرزا اور ایوب خاں کے لئے قابل قبول نہیں تھی

ان کی ریٹائرمنٹ سے 192 دن قبل 9جون1958 کووزیراعظم فیروز خان نون نے ان کے عہدے میں مزید دوسال کی توسیع کا بھی اعلان کردیا تھا۔
انھیں صدر سکندر مرزا کے دباؤ پر فیروز خان نون حکومت سے مزید دو برس کی پیشگی توسیع مل گئی، حالانکہ فیروز خان نون اگلا کمانڈر انچیف میجر جنرل نواب زادہ جنرل شیر علی خان پٹودی کو دیکھ رہے تھے اور بقول الطاف گوہر کمانڈر انچیف ایوب خان کو یہ گوارا نہ تھا جن کا فوجی علم بقول جنرل شیر علی پٹودی محض بیرک اور بٹالین تک محدود تھا۔

بالآخر پاکستان کے اس پہلے آئین کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔۔۔۔
جب اسکند مرزا نے 7 اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگایا تو آپ کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی فوجی کو براہ راست سیاست میں لایا گیا۔

سات اکتوبر 1958 کو جب صدر سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف ایوب خان کو پہلا ملک گیر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا تو بظاہر لگتا تھا کہ مارشل لا سکندر مرزا کی خواہش پر لگا۔ لیکن برطانوی دفترِ خارجہ کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق کراچی میں متعین برطانوی فوجی اتاشی نے یہ نوٹ لکھا کہ سات اکتوبر کے مارشل لا کی منصوبہ بندی دو ہفتے پہلے راولپنڈی میں سینئر آرمی افسروں کا ایک گروپ کر چکا تھا۔ ایک اور سفارتی نوٹ کے مطابق ایوب خان نے کئی مہینے پہلے ہی کہنا شروع کردیا تھا کہ صورتِ حال  مزید  بگڑی اور اگلے انتخابات میں تسلی بخش نتائج کے آثار نظر نہ آئے تو فوج کو بادلِ ناخواستہ کوئی قدم اٹھانا پڑے گا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ سکندر مرزا نے مارشل لا کے نفاذ سے بہت پہلے وزیرِ خزانہ ملک امجد علی اور کمانڈر انچیف ایوب خان کو یہ فرض سونپا کہ وہ امریکیوں کو بتائیں کہ اگر فروری 1959 میں عام انتخابات ہوئے تو کمیونزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والی بائیں بازو کی قوتوں کی کامیابی کا واضح خطرہ ہے۔ ایوب خان نے یہ جتانے کے لیے مارشل لا سے چھ ماہ قبل اپریل میں امریکہ کا دورہ کیا۔
مارشل لا کے نفاذ کے دو روز بعد چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر نے اسکندر مرزا کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ہم دونوں متفق ہیں کہ ملک شدید بحران کی طرف جارہا تھا لہٰذا مجبوراً مداخلت کرنا پڑی۔ لیکن جس صدر پر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے برملا اعتماد کا اظہار کیا اسی صدر کو مارشل لا کے 20ویں روز جنرل واجد علی برکی، جنرل کے ایم شیخ اور جنرل اعظم خان وغیرہ نے پستول کی نال پر استعفے پر دستخط کروا کے براستہ تہران لندن جانے والی پرواز پر بٹھا دیا۔
(ایوب خان کے نام سے شائع ہونے والی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ ایسی ناخوشگوار تفصیلات سے خاصی پاک ہے)۔

ایوب خان کے پاس وزارتِ دفاع کا قلمدان 20 اکتوبر 1958 کو بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر دوبارہ آگیا اور پھر یہ عہدہ انہوں نے اگلے آٹھ برس یعنی 21 اکتوبر 1966 تک اپنے پاس ہی رکھا اور پھر یہ اسے ایڈمرل اے آر خان کے حوالے کردیا۔
جناب ایوب خاں کے بارے بتلایا گیا کہ وہ ایک ہیرو ہیں کہا گیا قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمد ید کہا کیونکہ پاکستانی عوام اس دور میں غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ جلد ہی ایوب خان نے ہلال پاکستان اور فیلڈ مارشل کے خطابات حاصل کر لیے۔

ان کے نام کے ساتھ صرف یہی نہیں بلکہ کئی ’اوّل‘ لگے ہوئے ہیں، جیسے پاکستان کے اول حاضر سروس فوجی وزیرِ دفاع ، اول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، اول فوجی وزیرِ اعظم ( 24 تا 27 اکتوبر 1958)، اول فوجی صدر، اول فائیو سٹار جنرل ( فیلڈ مارشل ) جن کے دور میں اولین بھرپور پاک بھارت جنگ لڑی گئی اور اول جنرل جنھوں نے اقتدار کسی سویلین کی بجائے ایک اور جنرل کو منتقل کیا۔
ستائیس اکتوبر1958 کوجنرل محمد موسی بری افواج کے کمانـڈر انچیف مقرر ہوئے۔انہوں نے یہ عہدہ اسی روزجنرل ایوب خان کے وزیراعظم اور پاکستان کے مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بننے کے سبب فوری طور پر سنبھالاتھا۔

ایوب خان جب ازخود ترقی پا کر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر بن گئے تو انھیں ایک نئے کمانڈر انچیف کی تلاش ہوئی۔ پانچ نام سامنے تھے: میجر جنرل حبیب اللہ خان خٹک ( جنرل علی قلی خان کے والد ) ، میجر جنرل شیر علی خان پٹودی، میجر جنرل لطیف خان، میجر جنرل آدم خان اور میجر جنرل محمد موسیٰ۔لیکن جنرل موسیٰ کو پانچویں سے پہلے نمبر پر پروموٹ کرتے ہوئے شاید کچھ باتیں شعوری و لاشعوری طور پہ ایوب خان کے پیشِ نظر رہی ہوں گی۔ جیسے دیگر تمام امیدواروں کے برعکس جنرل محمد موسیٰ کا تعلق چھوٹی سی ہزارہ برادری سے تھا، چنانچہ یہ توقع کی جانی چاہیے تھی کہ اس پس منظر کے ساتھ جنرل موسیٰ صرف کام سے کام رکھیں گے۔ جنرل موسیٰ برٹش آرمی میں رینکر کے طور پر بھرتی ہوئے تھے۔ بعد ازاں اپنی محنت اور لگن سے دہرہ دون اکیڈمی میں کمیشن حاصل کیا جبکہ ان کے دیگر ساتھی جرنیل ڈائریکٹ کمیشنڈ آفیسر تھے۔
ایوب خان نے 1961 میں آئین بنوایا جو صدارتی طرز کا تھا اور پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply