کینسر (91) ۔ سماج کے جال/وہاراامباکر

مئی 2008 میں ہارورڈ کے دو ماہرینِ امراض نے سگریٹ نوشی کے بارے میں پیٹرن کی تحقیق پر کام کیا۔ عام طور پر ماہرینِ امراض دائمی اور غیرمتعدی بیماریوں کی تحقیق میں صرف افراد کو دیکھتے ہیں۔ لیکن اب انہوں نے ایک بڑا مختلف سوال کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ خطرات کا اصل مرکز افراد نہ ہوں بلکہ سماجی روابط ہوں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاول اور کرسٹاکس نے یہ کام فرامنگھم کے قصبے میں کیا۔ یہاں پر تمام معلوم تعلقات کی ڈایاگرام بنائی گئی۔ دوست، ہمسائے، بہن بھائی، سابقہ بیویاں، چچا، پھوپھو ۔۔۔ تعلقات کا یہ جال پورے قصبے پر پلاٹ کیا گیا۔
اور جیسا کہ اندازہ تھا، کچھ لوگ ان نیٹورکس کے مرکز پر تھے۔ یہ سوشلائزر تھے جن کے بہت سے تعلقات تھے۔ کچھ لوگ جال کے کناروں پر تھے۔ یہ تنہا تھے جن کے زیادہ روابط نہیں تھے۔
جب ماہرین نے تمباکو نوشی کی عادت کو اس نیٹورک پر پلاٹ کیا اور اگلی دہائیوں میں اس کا مشاہدہ کیا تو بہت قابلِ ذکر فینامینا ابھرنے لگا۔ تعلقات کے دائرے اس کی پیشگوئی کرتے تھے کہ تمباکونوشی کی عادت کیسے رہے گی۔ یہ اس کا سب سے اہم فیکٹر تھا۔
پورے نیٹورک یہ عادت ترک کر دیتے ہیں جیسا کہ سوئچ آف ہو جائے۔ ایک فیملی جو اکٹھے کھانا کھاتی ہے، وہ سگریٹ نوشی ترک بھی اکٹھے ہی کر دیتی ہے۔ جب سوشلائزر اس لت سے چھٹکارا پاتے ہیں تو ان کے کثیف نیٹورک بھی اس کو آہستہ آہستہ روک دیتے ہیں۔ پھر یہ صرف تنہا لوگوں تک رہ جاتی ہے کیونکہ ان پر سماجی اثر (مثبت یا منفی) کم ہوتا ہے۔ جب نیٹورک آف ہونے لگے تو صرف یہ تنہا لوگ شہر کے تنہا کونوں میں خاموشی سے دھواں اڑانے والے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سموکنگ نیٹورک کی یہ سٹڈی کینسر روکنے کے سادہ ماڈلز کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ یہ ماڈل بتاتا ہے کہ یہ عادت ہمارے سوشل ڈی این اے میں ویسے پائی جاتی ہے جیسے اونکوجین ہمارے جینیات میں۔ چند اہم جین اس کو سماجی نیٹورک میں آن کر سکتے ہیں۔
سگریٹ نوشی کی وبا خود ایک میٹاسٹیٹک طریقے سے پھیلی تھی۔ ایک جگہ پھیل کر دوسری جگہ کا بیج پڑا۔ یورپ میں جنگِ عظیم کے بعد لوٹنے والے فوجیوں سے شہری آبادی میں۔ خواتین سے دوسری خواتین میں۔
تمباکو کی صنعت میں موقع دیکھ کر اس کو سماجی گوند کے طور پر ہی مشتہر کیا تھا۔ اچھے دوست اکٹھے سگریٹ پیتے دکھائے جاتے تھے۔
جس طرح یہ پورے نیٹورک تیزرفتاری سے آف ہوتے ہیں، ویسے ہی آن بھی ہوتے ہیں۔ کم لوگ بڑا اثر دکھا سکتے ہیں۔ اس قصبے میں جس طرح یہ لت ختم ہوئی تھی، ویسے ہی اس کا پھیلاوٗ بھی ہو سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ وجہ ہے کہ کینسر کے بچاو کی کامیاب ترین حکمتِ عملی بھی بہت جلد ناکام ہو سکتی ہے۔ اس سرخ ملکہ کی دنیا میں رکے رہنے کے لئے بھی تیز بھاگنا پڑتا ہے۔ کینسر کے علاج میں بھی۔ اور اس کے بچاو میں بھی۔
تمباکو نوشی کے خلاف تحریک موثر رہی تھی۔ لیکن حالیہ برسوں میں ایشیا اور امریکہ میں یہ لت بڑھ رہی ہے۔ طاعون کی کسی پرانی وبا کی طرح اس کی واپسی ہو رہی ہے۔ سماجی رویے پھیل جاتے ہیں۔ سماجی نیٹورک عادات بنا دیتے ہیں۔ کینسر کے خلاف حاصل کردہ سب سے بڑی کامیابی سگریٹ نوشی کے خلاف چلنے والی تحریک تھی۔ اس کا غیرموثر ہو جانا کینسر کے خلاف ایک بڑی ناکامی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف، کارسنوجن کی دنیا میں جامد نہیں۔ ہم کیمیائی مخلوق ہیں۔ ہم نت نئے مالیکیول اخذ کرتے ہیں، صاف کرتے ہیں، پیدا کرتے ہیں۔ ہم اپنے گرد کیمیائی کائنات تخلیق کرتے ہیں۔ ہمارے جسم، ہمارے خلیے، ہمارے جین مالیکیولز کے ایک مسلسل بدلتے سمندر میں غرق ہیں۔ کیڑے مار ادویات، فارماسیوٹیکل ادویات، پلاسٹک، خوراک کی مصنوعات، ایسٹروجن، ہارمون، ریڈی ایشن، میگنٹزم۔ ان میں سے کئی یقینی طور پر کارسنوجینک ہوں گے۔ ہم اس سے دور نہیں بھاگ سکتے۔ ہمارا کام یہ ڈھونڈنا ہے کہ کونسے بے ضرر ہیں اور کونسے کارسنوجن ہیں۔
لیکن یہ کہنا آسان ہے، کرنا نہیں۔ کارسنوجن کی تلاش بالکل بھی آسان کام نہیں۔ 2004 میں ابتدائی سائنسی رپورٹس نے تجویز کیا کہ موبائل فون جو ریڈیو فریکونسی کی توانائی استعمال کرتے ہیں، وہ دماغ کے ایک مہلک کینسر، گلائیوما، کا سبب بن سکتی ہے۔ گلائیوما دماغ کے جس طرف نظر آ رہے تھے، وہی تھی جہاں پر فون ہوتا ہے۔ میڈیا میں پریشانی کا ایک ایوالانج شروع ہو گیا۔ لیکن کیا یہ درست تھا؟
برطانیہ میں اس کے بعد ایک بڑی سٹڈی شروع کی گئی۔ کیس اور کنٹرول کا موازنہ کیا گیا۔ 2006 میں اس کے پہلے نتائج یہ بتاتے تھے کہ اس کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن جب محققین نے اس ڈیٹا کو باریک بینی سے کنگھالا تو یہ تعلق ری کال بائیس کا سبب تھا۔ مجموعی طور پر گلائیوما اور موبائل فون کے استعمال میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ ماہرین اور موبائل فون کی عادت کا شکار لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب تک یہ سٹڈی مکمل ہوئی، مارکیٹ میں نئی جنریشن کے فون آ چکے تھے۔ پچھلی سٹڈی کے منفی نتائج غیرمتعلقہ ہو چکے تھے۔
کیا موبائل فون کا زیادہ استعمال کینسر کے امکان میں اضافہ کر سکتا ہے؟ ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس میں ہمارے لئے دو سبق ہے۔ پہلا تو یہ کہ کارسنوجن ہونے کا ہوا کھڑا کرنا اور خوف پھیلانا بہت آسان ہے۔ جبکہ دوسرا یہ کہ کارسنوجن طریقے سے اور باریک بینی سے کام کر کے ہی ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ ان کے خطرے کو ٹھیک طور پر سمجھنا، معقول ایکسپوژر کی حد نکالنا دشوار اور پیچیدہ کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونکولوجسٹ ہیرالڈ برسٹین کہتے ہیں۔ “کینسر سوسائٹی اور سائنس کے بیچ میں رہتا ہے۔ یہ ایک نہیں بلکہ دو چیلنج ہیں۔ پہلا بائیولوجی کا چیلنج ہے۔ اس میں سائنسی علم کا فائدہ اٹھانا شامل ہے۔ اس قدیم اور خوفناک مرض سے واقفیت اور اسے فتح کرنا ہے۔ لیکن دوسرا چیلنج سماجی ہے۔ اور یہ اتنا ہی بڑا ہے۔ یہ ہمارے رویہ، روایات اور عادات کو فتح کرنے کا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہ والی عادات اور رویہ وہ ہیں جو خود ہمارے اپنی ہی ہیں۔ ہم کیا کھاتے ہیں۔ کیا پیتے ہیں۔ کیا مصنوعات کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے ماحول میں کیا داخل کرتے ہیں۔ کب اگلی نسل پیدا کرتے ہیں۔ اور اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply