لڑکا رخصت کیوں نہیں ہوسکتا؟۔۔نسرین غوری

شاید ازل سے یا جب سے پدرسری سماج کا ظہور ہوا ہے ہر معاشرے میں لڑکی ہی رخصت ہوکر سسرال یا نئے گھر جاتی ہے۔ زیادہ تر ایک ہی شہر میں لیکن بعض اوقات کسی اور سسرالی شہر میں جا بستی ہیں۔ عموماً سسرال میں اور بعض اوقات نیا جوڑا الگ آشیانہ بنانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور یہ نیا آشیانہ عموماً لڑکے کے گھر کے نزدیک یا کم از کم لڑکے کے شہر میں ہوتا ہے۔ اور اس کے انتظام کی ذمہ داری بھی لڑکے پر ہی ہوتی ہے ۔اور جسےسامان سے بھرنا لڑکی کی ، خیر یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بات کی جانی چاہیے۔

زمانہ بدل رہا ہے ، خاندان، شادی اور اس سے جڑی رسومات اور روایات بھی بدل رہی ہیں۔ شہروں میں اب مڈل کلاس لڑکے لڑکیاں بھی پسند کی شادی کر رہے ہیں اکثر اوقات ان کی ملاقات سوشل میڈیا پر ہوتی ہے، اور واٹس ایپ سے ہوتے ہوئے بات شادی تک پہنچ جاتی ہے۔ لڑکے اور لڑکی کی باہمی پسند پر عموماً ہر دو کی فیملی اپروول کی مہر لگا دیتی ہیں۔ ایسی شادیاں عموماً جوڑے کی باہمی رضامندی سے روایتی جہیز، بری، بارات اور ولیمے کے بغیر بھی ہورہی ہیں، انٹر سٹی یعنی ایک شہر سے دوسرے شہر میں شادیوں کا رحجان بھی بڑھا ہے۔

سب کچھ بدل رہا ہے لیکن اگر کوئی روایت نہیں بدلی تو وہ لڑکی کے رخصت ہونے کی روایت ہے۔ یعنی یہ ہر معاشرے کے جیسے جینز اور کروموسومز میں طے ہے کہ لڑکی نے ہی قربانی دینی ہے، اس پر نہ غور و فکر کی ضرورت ہے نہ ہی کسی تبدیلی کی۔

شاید اس لیے کہ گھر داماد ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ ایک نکھٹو بے روزگار مرد کو بطور داماد ایک بوجھ کی طرح قبول کرلیا جائے اور نتیجے میں اسے وہ عزت نہ دی جائے جو ایک کماؤ پوت اور غیرت مند داماد کو دی جاتی ہے۔لہذہ لڑکے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سسرال کے ساتھ رہنے میں ان کی مردانگی پر حرف آئے گا اور انہیں بیوی کی کمائی یا دولت کھانے والا نامرد سمجھا جائے گا۔

حالانکہ اب وقت آگیا ہے کہ اس رسم یا روایت سمیت ہر رسم یا روایت میں اچھی تبدیلی کو قبول کیا جائے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ لڑکی ہی رخصت ہو۔ بلکہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جائے کہ کون ہجرت یا موومنٹ کرے گا لڑکا یا لڑکی؟

کیونکہ بدلتے وقت کے ساتھ بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کارول بھی تبدیل ہوگیا ہے۔بیٹا بڑھاپے کا سہارا اور بیٹی پرائی امانت کا تصور اب فرسودہ ہوچکا ۔ اب ضعیف والدین یافیملی کی ذمہ داری صرف بیٹوں کی نہیں، بیٹیوں کی بھی ہے۔ اور نتیجے میں بہت ساری ایسی سچویشنز ہوسکتی ہیں جن میں لڑکی کا اپنے گھر سے نکلنا یا اپنے شہر سے ہجرت/ موو کرنا اس کے لیے یا اس کی فیملی کے لیے مسائل کا باعث ہوسکتا ہے۔

میں ایک ایسی شادی کی گواہ ہوں جہاں لڑکی اپنے والدین کے گھر کی پرنسپل ہیڈ تھی۔ گھر کے تمام سماجی، معاشی، طبی اور خانگی معاملات کی اکلوتی ذمہ دار۔اس کی والدہ ایک طرح سے بیڈ پر ہیں اور ضعیف والد کو ہی ان کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ شادی کے بعد اسے رخصت ہوکر لڑکے کے شہر میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔ اب وہ دوسرے شہر میں اپنے والدین کی صحت و دیگر معاملات کے بارے میں پریشان رہتی ہے۔ دوسری جانب لڑکے کے دو مزیدبھائی ہیں جو اس کے والدین کی دیکھ بھال کرسکتے ہیں۔ اگر اس سچویشن میں باہمی مشاورت سے یہ طے کرلیا جاتا کہ لڑکا کراچی منتقل ہوجائے گا اور جو کام وہ اپنے شہر میں کرتا ہے کراچی میں اس سے بہتر کرسکے گا تو یہ فیصلہ لڑکی کے لیے بھی اطمینان کا باعث ہوتا اور وہ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی دیکھ بھال زیادہ بہتر طریقے سے کرسکتی تھی۔

خود ہمیں ایک صاحب نے سوشل میڈیا کے ذریعے پروپوز کیا۔ ہم اس بندے کو نہیں جانتے تھے اور ہمارےانکار کی وجوہات میں دیگر اور ذاتی وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ ایک بڑی اور اہم وجہ تھی کہ ہم اسے نہیں جانتے تھے۔ [بھئی کسی گروپ میں ایک کمنٹ لائک کرنے پر یا کتابیں پڑھنا مشترکہ مشغلہ ہونا شادی کے لیے کافی وجہ نہیں ہوتی]۔ ہمارے انکار پر اس کا پہلا سوال تھا کہ کیا آپ اس لیے انکار کر رہی ہیں کہ میں دوسرے شہر سے ہوں اور آپ کراچی سے ہیں۔ اور آپ کی وہاں مستقل جاب ہے۔؟

ہمارے انکار کی وجہ کچھ بھی تھی۔ لیکن اگر اس بندے سے ہماری اچھی ذہنی ہم آہنگی ہوتی، ہم ایک دوسرے کے لیے کمپیٹیبل ہوتے تب؟ تب یہی وجہ ہوتی کہ ہم تو اپنی فیملی کو ہرگز چھوڑ کے ہر گز نہ جاتے، ہمارے لیے یہ ممکن ہی نہیں ، اور اسے یا ہمیں یا کسی کو بھی یہ خیال کبھی نہ آتا کہ خاتون ہی کیوں، مرد بھی تو موو کرسکتا ہے شادی کی صورت میں۔ اور ہم دونوں اپنی اپنی جگہ بیٹھے ایک دوسرے کو یاد کر کر کے آہیں بھرتے رہتے ساری عمر۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ صرف دو مثالیں ہیں۔ ایسی ہزارہا رئیل لائف سچویشنز ہونگی جہاں لڑکی کی رخصتی سے اس کی فیملی میں مسائل پیدا ہوئے ہونگے۔ جیسے ایک صاحب کی صرف تین بیٹیاں ہیں اور تینوں شادی کے بعد ملک سے باہر جابسیں، اب وہ دونوں میاں بیوی اکیلے رہ گئے ہیں دو تین سال بعد کسی بیٹی کا چکر لگتا ہے۔ آج صحت مند ہیں، کل ضعیف ہوجائیں گے۔ دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس روایت پر سوچا جائے اور اس رویے کو نارملائز کیا جائے کہ شادی کے بعد نئے جوڑے کی رہائش فار گرانٹڈ لینے کے بجائے باہمی مشاورت سے دونوں خاندانوں کی بہتری کو مد نظر رکھ کر طے کی جائے۔؟

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply