گئے دنوں کی یادیں(11)۔۔مرزا مدثر نواز

سائیکل چمپئن سے آج کی نسل یقیناََ واقف نہیں ہو گی‘ کچھ لوگوں کا ایک گروہ ہوتا جو گاؤں کے باہر کھلی جگہ کا انتخاب کرتے اور ایک گول دائرہ بنا کر اس کے گرد لکڑیوں کا جنگلا لگا لیتے‘ اس گول دائرے میں ایک سائیکل سوار تقریباََ ہفتہ تک سائیکل چلاتا رہتا اور سائیکل کے اوپر ہی بیٹھے ہوئے مختلف کرتب دکھاتا‘ انتظامیہ یا سائیکل چمپئن گروہ کا دعوٰی ہوتا کہ سوار ان دنوں میں تمام امور سائیکل پر بیٹھے بیٹھے ہی سر انجام دیتا اور پاؤں زمین پر نہیں لگاتاتھا۔ عصر کے بعد لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہو جاتے‘ سپیکر پر گانوں کی آوازیں آنے لگتیں اور ایک شخص کمنٹری کر کے عوام کو سوار پر زیادہ پیسے پھینکنے کی ترغیب دینے لگتا‘ لوگوں کی طرف سے پھینکے گئے پیسوں کو سائیکل سوار کبھی آنکھ کی پلکوں اور کبھی جسم کے دوسرے اعضاء سے اٹھاتا‘ آخری دنوں میں ایک دن قبر کھود کر سوار کو اس میں لٹا دیا جاتا اور دوسرے دن سب کے سامنے قبر سے نکالا جاتا‘ آخری دن علاقے کے کسی امیر شخص کو بطور خصوصی مہمان مدعو کیاجاتا‘ سوار موٹر سائیکل و ٹریکٹر کو روکنے کا مظاہرہ کرتا اور مہمان سے انعام وصول کرتا۔ اس کے بعد یہ گروہ کسی اور گاؤں روانہ ہو جاتا۔

ریڈیو ماضی میں تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا تھا‘ شروع میں ریڈیو سیٹ کا سائز کافی بڑاتھا جو وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹا ہوتا گیا۔ اگر کوئی جانور چرانے کے لیے جاتا یا ویسے گھومنے جاتا تو اس کے پاس ریڈیو سیٹ لازمی ہوتا جس کو وہ کان سے لگائے رکھتا۔ ایف ایم سے پہلے اے ایم یعنی میڈیم ویو و شارٹ ویو پر پروگرام سنے جاتے‘ کچھ لوگوں کو بی بی سی سننے کا جنون کی حد تک شوق ہوتا‘ مجھے بھی ایک دوست نے بی بی سی کے پروگرام اور فریکوئنسی سے متعارف کرایا تو میں ان دنوں سیربین سمیت چاروں پروگرام بڑی باقاعدگی سے سنتا۔ ریڈیو پاکستان سے قرآن مجید کی تلاوت بمعہ ترجمہ روزانہ کی بنیاد پر نشر کی جاتی اور مخصوص انداز میں پڑھا جانے والا درود کچھ لوگوں کو آج بھی یاد ہو گا۔ انڈیا کے ریڈیو سٹیشن آکاش وانی سے روزانہ ایک گھنٹہ نشر ہونے والا فلمی گانوں کا فرمائشی پروگرام بہت مقبول تھا‘ پاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر بارہ بج کر چالیس منٹ پر کچھ اس طرح کی آواز آتی”یہ آکاش وانی ہے‘ ابھی آپ فوجی بھائیوں کے لیے فلمی گانوں کا پروگرام سنیں گے“ ہفتے کے کچھ دن غیر مقبول گیت سنائے جاتے جبکہ ہٹ گانوں کے لیے مخصوص دن ہوتے۔ میزبان فوجیوں کی طرف سے لکھے گئے خطوط کو مخصوص انداز میں پڑھتا‘ فرمائش کیے گئے گانے کا پورا تعارف کرواتا جیسا کہ یہ کس فلم کا ہے‘ بول کس نے لکھے ہیں‘ دھن کس نے بنائی ہے‘ کس نے گایا ہے وغیرہ وغیرہ‘ اور پھر نشر کیا جاتا‘ لکشمی کانت‘ پیارے لال کے نام سے لوگ شاید اسی وجہ سے زیادہ واقف ہیں۔خواتین آکاش وانی ریڈیو کی فریکوئنسی سیٹ کر کے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتیں اور ساتھ میں گانے سنتی رہتیں‘ اس دور کے مشہور گانے جو یقیناًَ  اسی فرمائشی پروگرام میں ہی سب سے پہلے سننے کو ملے‘ ان میں سے کچھ یہ ہیں جیسا کہ ”میرے متوا‘ میرے میت رے‘ آ جا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے“ ”بہارو پھول برساؤمیرا محبوب آیا ہے“ ”لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو“ ”سہانی چاندنی راتیں ہمیں سونے نہیں دیتیں“ ”بڑی مستانی ہے میری محبوبہ“ ”دل لگی نے دی ہوا‘ تھوڑا سا دھواں اٹھا“ ”ہم تمہیں چاہتے ہیں ایسے‘ مرنے والا کوئی زندگی چاہتا ہو جیسے“ وغیرہ وغیرہ اور اس کے علاوہ ہٹ نائنٹیز۔ اس دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے‘ ایف ایم ریڈیو نے بہت عروج دیکھا‘ شروع میں ایف ایم 100سب سے زیادہ سنے جانے والا سٹیشن تھا‘ ایک دور میں لوگ ایف ایم کے دیوانے تھے‘ میرا سب سے پسندیدہ پروگرام بیک ٹو بیک میوزک ہوتا۔ کرکٹ میچز کی کمنٹری ہم ریڈیو پر سنتے جو کہ کافی دلچسپ ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیشنل یا دوسری کمپنیوں کے ٹیپ ریکارڈر شاید آج بھی کچھ لوگوں کے گھروں میں موجود ہوں‘ میوزک سنٹر کا کاروبار خوب منافع بخش تھا‘ آڈیو کیسٹ بنانے والی مشہور کمپنیاں سونی‘ ایگل اور ٹی ڈی کے تھیں‘ مختلف گلوکاروں کے والیم آتے رہتے‘ اس کے علاوہ آڈیو کیسٹ کمپنیاں فلمی گانوں پر مشتمل والیم نکالتی رہتیں‘ ایک آڈیو کیسٹ میں دس سے بارہ گانے ہوتے‘ اس کے علاوہ لوگ اپنی کیسٹ خرید کر اپنی پسند کے گانے بھی ریکارڈ کرواتے۔ دیہات میں اکرم راہی‘ منصور ملنگی‘ اللہ دتہ لونے والا‘ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی‘ نصیبو لعل جیسے گلوکار کافی مقبول تھے۔ ٹیپ ریکارڈر کا ہیڈ اکثر گندا ہو جاتا جس کو نئے نوٹ سے صاف کیا جاتا‘ کیسٹ کی میگنیٹک ٹیپ بھی کبھی کبھار پھنس جاتی جس کو نکال کر لیڈ پنسل یا مارکرسے گھما کر دوبارہ سیٹ کیا جاتا‘ اگر ٹوٹ جاتی تو نیل پالش سے جوڑا جاتا۔ جس آڈیو کیسٹ پر ساٹھ لکھا ہوتا‘ وہ ایک گھنٹہ چلتی اور جس پر نوے لکھا ہوتا‘ وہ ڈیڑھ گھنٹہ چلتی‘ ایک سائیڈ تیس یا پینتالیس منٹ کے بعد ختم ہو جاتی تو پھر اس کی سائیڈ تبدیل کی جاتی۔بیرون ملک رہنے والے اپنی باتیں آڈیو کیسٹ میں ریکارڈ کر کے کسی کے ہاتھ گھر والوں کو بھیجتے۔ ٹیپ کے بعد کچھ عرصہ ڈیک نے بھی کافی عروج دیکھا اور اپنی اونچی آواز کی بدولت محلے اور ارد گرد میں رہنے والوں کو کافی پریشان کیا۔ ٹیپ ریکارڈر کے برعکس ڈیک میں ہائی گین ایمپلی فائر استعمال ہوتا ہے جس سے آواز بہت اونچی سنائی دیتی ہے۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply