• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ماں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے بیٹے کی شکست۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

ماں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے بیٹے کی شکست۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

دنیا کی تاریخ کھنگال لیجیے – گوگل سے مدد لیں یا کتابوں میں ڈھونڈ لیں – جدید تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا انتخابی معرکہ ملے گا جس میں کسی بیٹے نے ماں کے خلاف الیکشن لڑنے کی جرأت کی ہو – البتہ کچھ واقعات ایسے ضرور ملیں گے کہ ناخلف بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا ہو یا جائیداد پر قبضہ کر کے گھر سے نکال دیا ہو – الیکشن لڑنا سیاسی شعور اور ذہنی پختگی کی علامت ہوتا ہے لہذا الیکشن لڑنے والوں کو اپنی ماں کے احترام اور عزت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے – اس لیے یہ سوچنا ہی بہت تکلیف دہ ہے کہ کسی بیٹے نے ماں کے خلاف الیکشن لڑا ہو۔۔

پچھلے سال 2017ء میں کینیا کی ایک کاؤنٹی مشرقی بومٹ میں ایک ناخلف بیٹے کپن گائتھ کالیا کونز نے چاماچا ماشی نانی پارٹی کے ٹکٹ پر اپنی مخالف امیدوار جوبلی پارٹی کی ٹکٹ ہولڈر اپنی سگی ماں بیٹرائیس کونز سے بری طرح شکست کھائی – کینیا ہی کی طرح پاکستان میں بھی اس ضمنی الیکشن 2018ء میں “ن” لیگ کے سابق صوبائی وزیر ہارون سلطان بخاری نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے صوبائی حلقہ 272 (جتوئی ضلع مظفر گڑھ) میں اپنی سگی والدہ اور تحریک انصاف کی امیدوار زہرہ بتول بخاری سے عبرت ناک شکست کھائی – کینیا اور پاکستان کے اپنی نوعیت کے دونوں انتخابات میں ووٹروں کی رائے یہی تھی کہ انہوں نے ناخلف بیٹوں کو اس لیے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا کہ انہوں نے اپنی ماں کے خلاف الیکشن لڑ کر معاشرے کی روایات اور ماں کے مقام کی بےحرمتی کی ہے۔

اس سے پہلے کہ تعصب اور نفرت سے پراگندہ اذہان میں ناموں کی وجہ سے اپنی مذہبی منافرت کو تسکین دینے کی وجہ ملے راقم وضاحت کر دیتا ہے کہ ہارون سلطان بخاری اور زہرہ بتول بخاری میں سے کوئی بھی مخالف فرقہ سے تعلق نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ شیعہ سنی جھگڑے کا شاخسانہ ہے۔

پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 272 میں تقریباً 75 فیصد مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی اور 25 فیصد کے لگ بھگ تحصیل مظفر گڑھ کا علاقہ شامل ہے ۔ سنہ 2018ء کی نئی حلقہ بندیوں کے مطابق یہ حلقہ دریائے چناب کے مغربی کنارے سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے شرقی کنارے تک جاتا ہے جس کی کل آبادی 3 لاکھ 49 ہزار 666 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 66 ہزار 247 ہے، جس میں 93 ہزار 646 مرد اور 72 ہزار 601 عورتیں شامل ہیں ۔ رقبے کے لحاظ سے یہ بہت بڑا حلقہ ہے اور اس میں 55 کے لگ بھگ بڑے چھوٹے قصبات اور دیہی شہر آتے ہیں جن میں میونسپل کمیٹی شہر سلطان، ڈمیر والا شمالی، کلر والی اوّل، دوئم کھنگن جتوئی، کوٹلہ گانمون، آلودے والی، کوئلہ لعل شاہ، شکر بیلا، رکن والی، رکھ مانک پور، مسلم چھجڑہ، میراں پور، ماہڑاہ شرقی، مکول، لنگڑیال، کوٹلہ سلطان شاہ، خیر پور پنجابی اور بیٹ سیال کے علاقے شامل ہیں ۔ یہاں کی سیاست پاکستان کے دیگر پسماندہ علاقوں کی طرح ہے اور یہاں پر بھی عوامی سیاست پر تھانہ کچہری کے اثرات نمایاں ہیں اور اکثر غریب لوگ چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں ۔

اس حلقہ کی سیاست پر تین بڑے گروپ ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں جن میں سرفہرست بخاری گروپ کے علاوہ جتوئی گروپ اور لغاری گروپ شامل ہیں ۔ یہاں عرصہ 20 سال سے بخاری گروپ سید عبداللہ شاہ بخاری مرحوم کی قیادت میں کسی نہ کسی حوالے سے برسرِ اقتدار رہا ہے ۔ ان علاقوں میں پارٹی پالیٹکس نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگ شخصیت، برادری ازم اور گروپ بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں – جس میں جیت ہمیشہ پاورپالیٹکس کی ہی ہوتی ہے ۔ حال ہی میں ہونے والے جنرل الیکشن 2018ء میں سید باسط سلطان بخاری نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے ہوئے توقعات کے برخلاف قومی اسمبلی کے حلقہ 185 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 272 دونوں میں بیک وقت کامیابی حاصل کی جبکہ باسط سلطان بخاری کی بیگم زہرا باسط بخاری تحریک انصاف کی ٹکٹ پر بھی قومی اسمبلی کے حلقہ 184 سے شکست کھا گئیں – آگے بڑھنے سے پہلے وضاحت کر دوں کہ بخاری گروپ کے سابق سربراہ مرحوم عبداللہ شاہ بخاری کے بڑے بیٹے باسط سلطان بخاری ہیں جو ان کی زندگی میں ہی قومی اسمبلی کے لئیے الیکشن لڑا کرتے تھے جبکہ مرحوم عبداللہ بخاری کے چھوٹے بیٹے ہارون سلطان بخاری صوبائی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑا کرتے تھے اور پچھلے دور حکومت میں “ن” لیگ کی طرف سے صوبائی وزارت پر بھی فائز رہ چکے ہیں – بخاری گروپ کے چیف سید عبد اللہ شاہ بخاری مرحوم نے اپنے دور حیات میں اپنی اولاد کو صرف الیکشن لڑنے تک محدود رکھا تھا جبکہ علاقائی سیاست، گروپ بندی، مقامی فیصلے اور تھانہ کچہری کے معاملات وہ خود نمٹایا کرتے تھے – اس طرح عوام اور ان کے سیاسی جانشینوں (اولاد) کے درمیان فاصلے بہت زیادہ تھے ۔

سنہ 2016ء کے اواخر میں جب سید عبد اللہ شاہ بخاری اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تو ان کی اولاد کے لیے ان علاقوں میں نیا سیاسی سیٹ اپ بنانا کافی مشکل ہو گیا تھا جس کی بڑی وجہ دونوں بھائیوں کے درمیان جائیداد کے معاملے پر شدید نوعیت کے اختلافات تھے – خود سید عبداللہ بخاری اپنی اولاد کے درمیان اختلافات کو رفو نہ کرا سکے اور ان کا تصفیہ کئے بغیر اس دنیا سے چلے گئے ۔ سید عبد اللہ شاہ کی وفات کے بعد سیاسی مخالفین نے بخاری گروپ کے مابین اختلافات کو اس حد تک ہوا دی کہ سابق صوبائی وزیر سید ہارون سلطان بخاری نے بخاری ہاؤس کانڈھ شریف میں اپنے بڑے بھائی سید باسط سلطان بخاری کے داخلے پر پابندی عائد کر دی اور یہاں تک بھی سنا گیا ہے کہ وزیر موصوف نے گن پوائنٹ پر اپنے بڑے بھائی کو بھاگنے پر مجبور کر دیا – اس کی وجہ سے باسط سلطان بخاری نے اپنی پوری الیکشن کمپئن اپنے چیف سپورٹرز کے ڈیروں پر رہ کر کی جبکہ اسی دوران باسط سلطان بخاری متحدہ سرائیگی صوبہ محاذ کے نائب صدر بن کر پاکستان تحریک انصاف میں جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے –

ہارون سلطان بخاری نے   الیکشن جیتنے کے لئیے عورت کو” ووٹ دینا حرام ہے ” کا فتوی بھی دیا۔ یہ فتوی وہ جن عورتوں کے خلاف دے رہا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ جنرل الیکشن میں اس کی سگی بھاوج اور باسط سلطان بخاری کی اہلیہ زہرا باسط بخاری تھیں اور اس ضمنی الیکشن میں ہارون سلطان اور باسط سلطان کی سگی والدہ زیرہ بتول بخاری تھیں – یعنی جنرل الیکشن میں اس کے مدمقابل اس کی بھابی تھی تو اب ضمنی الیکشن میں اس کے مقابلہ میں اس کے مقابل اسکی ماں تھی۔ جنرل الیکشن میں “ن” لیگ کی پانچ نشستوں کا اکیلا ٹکٹ ہولڈر بھی یہی ہارون سلطان بخاری تھا –

جب تک   عبداللہ شاہ بخاری کانڈھ والے زندہ تھے انہوں نے اپنے علاقہ میں انتہا پسندی پنپنے نہیں دی اور اولاد کو بھی دور رکھا مگر ان کی وفات سے پہلے ہی ہارون سلطان بخاری کا اٹھنا بیٹھنا ان مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ہو گیا جو ہر معاملہ میں ٹھوک کے کفر اور حرام کے فتوی دے مارتے ہیں مگر اپنے خاندان اور حقوق العباد کے معاملہ میں انتہائی ظالم مزاج اور سخت ہوتے ہیں – ان انتہا پسندوں کی صحبت کی وجہ سے ہارون سلطان بخاری کی طبعیت میں سخت مزاجی اور حقوق العباد کو غصب کرنے کا رویہ پیدا ہو گیا اور اس نے آبائی جائیداد پر قبضے, انتہا پسند طالبان سے تعلقات, اپنے خاندان کی خواتین کے مقابلہ میں الیکشن لڑنے اور ان کے خلاف فتوے دینے جیسے قبیحہ گناہ سر انجام دے ڈالے جن کی وجہ سے عوام میں ہارون سلطان بخاری کے لیے شدید ناپسندیدگی اور اس کے بھائی باسط سلطان بخاری کے لیے ہمدردی کی بہت بڑی لہر پیدا ہو گئی –

لوگوں کی اس ہمدردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سید باسط سلطان بخاری نے جنرل الیکشن میں آزاد حیثیت سے نہ صرف جتوئی سے این اے 185 بلکہ پی پی 272 سے بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی – ان کے مقابلہ میں جتوئی برادری اور تحریک انصاف کے امیدوار ضیاء اللہ جتوئی کے علاوہ، متحدہ مجلس عمل کے عبداللہ لنگڑیال, عوامی راج پارٹی کے شہزاد فرقان اور “ن” لیگ کے امیدوار ان کے سگے بھائی ہارون بخاری بھی شامل تھے ۔

دو سیٹوں پر سید باسط سلطان بخاری کی بطور آزاد امیدوار کامیابی نے مقامی سیاست کا رخ موڑ کر رکھ دیا ۔ انہوں نے قومی حلقے 185 کی سیٹ اپنے پاس رکھتے ہوئے صوبائی سیٹ چھوڑنے کا فیصلہ کیا – صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں سید باسط سلطان بخاری گروپ نے کمال سیاسی چال کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی والدہ محترمہ سیدہ زہرہ بتول کو سیاسی میدان میں اتار کر اپنے بھائی سمیت تمام سیاسی دشمنوں کے دانت کھٹے کر دئیے اور اس کے علاوہ ان کے پاس پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی ترب چال بھی موجود تھی ۔ اس سیاسی چال کی وجہ سے اکثر مقامی سیاستدان اور دھڑے سید عبد اللہ کی بیوہ کے مدمقابل الیکشن کرنے یا ان کے خلاف انتخابی مہم چلانے سے گریز کرتے رہے ہیں لیکن ان کا حقیقی بیٹا سید ہارون سلطان بخاری اپنی ماں کے مد مقابل انتہائی تیزی سے بھرپور انتخابی مہم چلاتا رہا – اس الیکشن کو جیتنے کی ہوس میں مبتلا ہارون سلطان بخاری نے 70 سال سے اپنے دیرینہ سیاسی مخالف سردار مؑعظم خان جتوئی کے ساتھ بھی الحاق کر کے اسے اپنے حق میں دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا حالانکہ جتوئی گروپ عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید خان دستی اور سابق ایم پی اے ملک قسور لنگڑیال کی حمایت سے ایک طاقتور سیاسی گروپ بنانے میں کامیاب ہو سکتا تھا ۔ اور وہ ضمنی الیکشن میں بخاری گروپ کے دونوں بھائیوں کو شکست فاش سے دو چار کر سکتا تھا ۔ دوسری طرف سردار خرم سہیل خان لغاری ایم پی اے اور ان کی مکمل برادری نے سید باسط سلطان کے ساتھ الحاق کیا جبکہ روہیلانوالی سے رانا برادری کے چیف رانا شفقت حسین اور جتوئی گروپ کے میاں خالد مکول نے بھی گروپ کو خیر باد کہہ کر باسط بخاری گروپ کی مکمل حمایت کی – اس کے علاوہ سعید احمد کھاکھی چیئرمین یو سی جھنڈیوالی، چام مظفر علی ماہڑہ، جام ظفر کریم ماہڑہ اور حاجی عبد الستار کنیرا بھی باسط بخاری گروپ میں شامل ہو گئے اور ماں, بیٹے کے درمیان تقریبا” ون ٹو ون مقابلہ میں پی ٹی آئی کی امیدوار سیدہ زہرہ بتول بخاری نے اپنے ناخلف اور جائیداد پر قابض بیٹے سید ہارون سلطان بخاری کو شکست دی –

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیشہ سے سنتے آئے تھے اور تاریخ بھی پڑھتے رہے کہ ضلع مظفر گڑھ الیکشنز میں نئے ریکارڈ بناتا ہے اور اس دفعہ سابق صوبائی وزیر ہارون سلطان بخاری نے اپنی سگی ماں کے خلاف الیکشن لڑنے کا شرمناک ریکارڈ بنا ڈالا اگرچہ اس الیکشن میں ہارون بخاری کو عبرتناک شکست اور عوام میں شدید ناپسندیدگی کا تحفہ مل چکا ہے مگر اب دنیا کی تاریخ میں پاکستان کا نام اس لئیے بھی جانا جائے گا کہ یہاں اقتدار کے لالچی ایک سابق صوبائی وزیر نے اپنی سگی ماں کے خلاف الیکشن لڑنے کی جسارت کی –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply