نظامِ کہنہ میں انقلابی تبدیلیاں۔۔نصرت جاوید

عمران حکومت کے وزراء اور ان سے کہیں زیادہ ترجمانوں کی فوج ظفر موج بہت پریشان تھے کہ میڈیا میں “مہنگائی-مہنگائی” کی دہائی کیوں مچائی جارہی ہے۔ انہیں میسر اعدادوشمار تو یہ بتارہے تھے کہ اب کے برس کئی نقدآور فصلوں نے ریکارڈ بناتی پیداوار دکھائی ہے۔ اس کی بدولت کاشت کاروں کے ہاتھ توقع سے زیادہ نقدی آئی۔ اضافی رقوم سے انہوں نے بڑے چائو سے نئی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں اور ٹریکٹر خریدے۔ نظر بظاہر وطن عزیز میں پھیلتی خوش حالی فقط دیہات تک ہی محدود نہیں رہی۔ شہروں کے مہنگے ترین ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ مری جیسے مقامات سے برف باری کی خبریں آئیں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موبائل فونوں پر موجود موسم کا حال جانے بغیر ہی بچوں سمیت وہاں پہنچنے کو گھروں سے نکل آتے ہیں۔ میڈیا ان حقائق کو لیکن جان بوجھ کر نظرانداز کرتا رہا۔ لوگوں میں مایوسی پھیلانے کو مصررہا۔ ٹھوس حقائق کا لہٰذا بغور جائزہ لینے کا فیصلہ ہوا۔

اعدادوشمار کی بھرپور توجہ سے دوبارہ پڑتال ہوئی تو گزشتہ ہفتے دریافت یہ ہوا کہ آج سے چھ ماہ قبل وفاقی بجٹ تیار کرتے ہوئے ہمارے پالیسی سازوں نے تین کھرب روپے کی خطیر رقم کو مجموعی قومی آمدنی میں شمار ہی نہیں کیا تھا۔ وہ اس آمدنی کو ان پیمانوں کی مدد سے طے کرتے رہے جو آج سے نوبرس قبل اختیار کیے گئے تھے۔ ان پیمانوں کی نظرثاتی لازمی تصور ہوئی۔ اسے Rebasingکا نام دیا گیا۔ نئے پیمانوں کے اطلاق نے خوش گوار حیرتیں اجاگر کیں۔ یہ دریافت ہوا کہ کرونا کی پھیلائی نحوستوں کے باوجود پاکستان کی معیشت 5۔ 6فی صد کی شرح نمودکھارہی ہے۔ ہماری فی کس آمدنی بھی 500ڈالر کے خانے سے نکل کر 1600ڈالر والے خانے میں داخل ہوچکی ہے۔

نئے حقائق کی دریافت نے حکومت کا حوصلہ بڑھادیا ہے۔ نہایت فخر سے انہیں دہراتے ہوئے اصرار ہورہا ہے کہ 2018میں تقریباََ خالی ہوئے قومی خزانے کے ساتھ حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان صاحب کی قیادت نے نہ صرف ہماری معیشت کو بحال کیا بلکہ اسے تیز رفتار ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا ہے۔ معیشت کی بحالی اور استحکام وخوشحالی کی جانب جاری سفرمیں اِن ہائوس تبدیلی کی امید دلاتے ہوئے رکاوٹیں ڈالنا موجودہ حکومت ہی نہیں وطن عزیز کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ مایوس کن کہانیاں پھیلاتے ہوئے عمران حکومت کو گھر بھیجنے کی بڑھکیں لگاتے ہوئے خود غرض اور تخریب کار عناصر کا مکو اب ہر صورت ٹھپنا ہوگا۔

ہمارے میڈیا کو پہلے ہی مناسب حد تک حکومتوں میں باریاں لینے والے سیاست دانوں کے لفافہ برادر صحافیوں سے پاک کردیا گیا ہے۔ میرے جیسے پھلوں کی ٹوکریاں لینے والے اگرچہ اب بھی کالم-شالم لکھ لیتے ہیں۔ ڈیجیٹل زمانے میں لیکن اخبارات کے لئے لکھنے والے بکائو لکھاریوں کا اعتبار ختم ہوچکا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر جو “شرپسند”باقی ر ہ گئے ہیں وہ ڈاکٹر شہباز گل کے جلال کی تاب برداشت نہیں کرسکتے۔ عاصمہ شیرازی جیسی اینکر بھی اب سپاہ ٹرول کے نرغے میں گھر چکی ہے۔ چند سیاستدان مگر اب بھی سیدھے نہیں ہورہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی کورم کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ حکومت کورم پورا کر بھی لے تو منفی تقاریر شروع ہوجاتی ہیں۔

ایسے سیاستدانوں کے رویے سے اکتاکر ایک اخباری خبر کے مطابق تحریک انصاف کے جوا ں سال وبلند آہنگ وزیر جناب مراد سعید صاحب نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو باقاعدہ چٹھی لکھ دی ہے۔ مبینہ خط کے ذریعے ان سے درخواست ہوئی ہے کہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے مقدس ایوان کو مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے افراد لایعنی تقریروں کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ایسی تقاریر کے تدارک کا بندوبست ہونا چاہیے۔

1960کی دہائی کے وسط میں چینی انقلاب کے رہبر مائوزے تنگ کو شدت سے احساس ہونا شروع ہوا کہ حکومتی عہدوں پر دودہائیاں گزارنے کی وجہ سے ماضی کے بے تحاشہ “انقلابی” بدعنوان وعیاش بن گئے ہیں۔ پرانے ساتھیوں کے بدلے چلن سے اکتاکر مائوزے تنگ نے مراد سعید اور شہباز گل جیسے تازہ دم انقلابیوں کو “ریڈ بریگیڈ” میں جمع کیا۔ انہیں ہدایت دی کہ نکمے اور عیاش ہوئے انقلابیوں کے گھروں اور دفتروں کے باہر ان کے کرتوتوں کو بے نقاب کرنے والے پوسٹر لگائے جائیں۔ وہ اس کے باوجود شرمندہ نہ ہوں تو ان کے دفاتر اور گھروں کا گھیرائو کیا جائے۔ مائوزے تنگ کی سوچی ترکیب بالآخر چین میں “ثقافتی انقلاب” کا باعث ہوئی۔ اعلیٰ ترین عہدوں پر کئی برسوں سے بیٹھے لاکھوں پرانے انقلابی معتوب ہوکردیہاتوں میں کسانو ں کی طرح مشقت کرنے کو بھیج دئیے گئے۔

چند دنوں سے حکومتی ترجمانوں اور چند وزراء کے رویے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے میں یہ سوچنے کو مجبو ر ہوں کہ تحریک انصاف کے اصل انقلابی بھی پاکستان میں چین جیسا ثقافتی انقلاب لانے کو بے چین ہورہے ہیں۔ نہایت حقارت سے یہ پیغام پھیلایا جارہا ہے کہ پاکستان درحقیقت ساٹھ سال سے زیادہ عمر والی نسل کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ عمران خان صاحب اگرچہ اس ضمن میں انقلابی استثناء ہیں۔”نظام کہنہ” کی وجہ سے سیاسی اور عدالتوں بندوبست کئی برسوں سے چلاآرہا ہے اس نے عمران حکومت کو سیاست دانوں کا روپ دھارے چور اور لٹیروں کا کڑا احتساب نہیں کرنے دیا۔ نواز شریف عدالتوں سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود مبینہ طورپر بیماری کا ڈھونگ رچاتے ہوئے لندن چلے گئے۔ ان کے بھائی شہباز شریف نظر بظاہر منی لانڈرنگ کے عادی مجرم رہے ہیں۔ قومی اسمبلی جیسے مقدس ایوان میں لیکن وہ قائد حزب اختلاف جیسے باوقار منصب پر فائز ہیں۔ رانا ثناء اللہ منشیات کی بھاری بھر کم پوٹلی سمیت گرفتار ہوئے تھے۔ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد البتہ دندناتے پھررہے ہیں۔ احسن اقبال، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی بھی سنگین مالی الزامات کے تحت بنائے مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کو لیکن یہ سارے اپنی خواہش کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے انقلابیوں کا اصل دُکھ یہ ہے کہ بدعنوان سیاستدانوں کے کڑے احتساب میں ناکام نظر آنے کی وجہ سے ان کی جماعت عوامی مقبولیت کھورہی ہے۔ نام نہاد مہنگائی اس کی حقیقی وجہ نہیں۔

تحریک انصاف کے چراغ پا ہوئے انقلابیوں کو مگر یہ سمجھ نہیں آرہا کہ فقط نظام کہنہ کے تحت بنائے سیاسی اور عدالتی بندوبست کو چور اور لٹیروں کا مددگار دکھانے سے بات نہیں بنے گی۔”انقلاب” تخلیقی پیش قدمیوں کا تقاضہ کرتا ہے۔ مراد سعید صاحب اگر واقعتا قومی اسمبلی میں چور اور لٹیروں کو بے بس بنانا چاہتے ہیں تو محض اس ایوان کے قواعد وضوابط میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے بھی شاندار نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ مذکورہ قواعد کے تحت مثال کے طورپر سنگین ترین الزامات کے تحت جیل میں قید ہوئے رکن اسمبلی کو بھی یہ حق میسر تھا کہ وہ ایوان کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے ہر صورت لایا جائے۔ اسد قیصر صاحب نے بتدریج اس حق پر عملداری ترک کررکھی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی چلانے کے لئے جو قواعد وضوابط “نظام کہنہ” نے متعارف کروائے ہیں ان کی جارحانہ نظرثانی ہو۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم نہ سہی اکثریت اب بھی حاصل ہے۔ حال ہی میں یہ اکثریت ایک ہی دن میں منی بجٹ کے علاوہ پندرہ قوانین کی منظوری کی بدولت ثابت ہوئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذکورہ اکثریت کی بنیاد پر تحریک انصاف کے انقلابی قومی اسمبلی پر لاگو ہوئے قواعدوضوابط کوبآسانی بدل سکتے ہیں۔ یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ جس رکن اسمبلی کے خلاف احتساب عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں اسے ضمانت پر رہائی کے باوجود قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا حق میسر نہیں ہوگا۔ جب تک وہ اس مقدمے میں بری نہ ہوجائے اسے اسلام آباد میں رہائش کے لئے پارلیمانی لاجز میں فلیٹ بھی فراہم نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی اسے بطور رکن اسمبلی تنخواہ اور سفری مراعات میسر ہوں گی۔”نظام کہنہ” کے خلاف مسلسل سینہ کوبی کے بجائے تحریک انصاف کو انقلابی انداز میں قدم بڑھانا ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے ضواعد وضوابط میں اس خاکسار کی تجویز کردہ تبدیلیوں کی بدولت “چور اور لٹیروں ” کا مکو بآسانی ٹھپا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply