دنیا کے اے مسافر‘ منزل تیری قبر ہے‘ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار کر سکا نہ کر سکتا ہے۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے‘ معلوم نہیں کہ کتنے اربوں‘ کھربوں کی تعداد میں انسان اس سیّارے پر تشریف← مزید پڑھیے
آج ہم اور ہمارے علما بھی صرف خود کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں اور دوسرے کی رائے کو پرکھے بغیر لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ جو انہوں نے پڑھ لیا یا استاد نے بتا دیا،وہی حرف ِ آخر← مزید پڑھیے
دوسری جنگِ عظیم میں جاپان مغلوب ہُوا اور اسے نہ چاہتے ہوئے بھی غالب کے تمام اقدامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس نے اپنی ہتک آمیز شکست کا بدلہ لینے کے لیے ایک نئے اور منفرد راستے← مزید پڑھیے
ایک مسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی‘ وہ کتابت کا کام کرتے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ الرسالہ پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں‘ مجھ کو الرسالہ بہت پسند ہے مگر آپ کی ایک بات مجھے کھٹکتی ہے‘ آپ اکثر مسلمانوں کی← مزید پڑھیے
حضرت ابراہیم بن عیلہؒ کو خلیفہ (بادشاہ) ہشام بن عبد الملک اموی نے بلایا اور ان کو مصر کے محکمہ خراج کے افسر کا عہدہ پیش کیا۔ حضرت ابراہیم بن عیلہؒ نے عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور← مزید پڑھیے
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب: قادیان میں ہر سال ہمارا جلسہ ہوا کرتا تھا اور سیدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ بھی اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال اسی جلسہ پر تشریف لائے، میں بھی آپ← مزید پڑھیے
وہ ایک شریف النفس‘ سادہ طبع‘ مثبت سوچ کا حامل‘ معاشرتی پیچ و خم و بھول بھلیوں سے نا آشنا‘ شرمیلا‘ میل جول سے ہچکچانے والا‘ کمزور و لاغر اندام‘ دبلا پتلا‘ سست الوجود اور کسل مند لیکن ایک خوش← مزید پڑھیے
تیمور کا پہلا استاد ملّا علی بیگ تھا۔ ایک دفعہ ملّا علی بیگ نے تیمور کے باپ کو بلا کر کہا کہ اس بچے کی قدر جان،یہ نا صرف ذہین اور دوسرے بچوں سے بہت آگے ہے بلکہ اس میں← مزید پڑھیے
بہار کے بعد یو۔پی کی باری آئی۔ گڑھ مکیتسر میں ہر سال ہندوؤں کا میلہ لگتا تھا جس میں لاکھوں ہندو شامل ہوا کرتے تھے۔ چند ہزار غریب مسلمان بھی اس میلے میں خریدو فروخت کا سامان لے کر جمع← مزید پڑھیے
تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں حال کی انسانی نسلیں اپنے ماضی کا مشاہدہ کر سکتی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے‘ مثلاََ فخر کے جذبہ کی تسکین حاصل کرنا یا ماضی کی معلومات کے طور← مزید پڑھیے
ملکہ نے دل پر پتھر رکھ کر بادشاہ کے اس فیصلے کو قبول تو کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد پرندوں و جانوروں کی بدولت اپنے پسندیدہ باغ کو پہنچنے والے معمولی نقصان سے دوبارہ دلبرداشتہ ہو گئی اور بادشاہ← مزید پڑھیے
منہ زیادہ یا ناک (حصّہ اوّل)/ملکہ کو باغبانی کا جنون کی حد تک شوق تھا‘ اسے پھولدار و پھلدار پودوں سے حد درجہ محبت تھی۔ بادشاہ نے اپنی چہیتی ملکہ کے اس شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع رقبہ پر ایک انتہائی خوبصورت باغ لگوایا← مزید پڑھیے
گئے دنوں کی یادیں (12)۔۔مرزا مدثر نواز/پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز سن انیس سو چونسٹھ میں کیا البتہ ٹیلی ویژن سیٹ عام ہوتے ہوئے کافی وقت لگا۔ اسی و نوے کی دہائی تک محلے میں یہ سیٹ ہر گھر کی زینت نہیں بنا تھا‘ اکثریت کے پاس چودہ انچ کا بلیک اینڈ وائٹ سیٹ تھا← مزید پڑھیے
بہر حال تعزیری احکام و قوانین کی یہ تعبیر ان لوگوں کے لیے جو اسلام کے نظام شرع سے واقفیت نہیں رکھتے‘ سخت غلط فہمی کا باعث ہو جاتی ہے۔ وہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان کے اسلامی قانون ہو← مزید پڑھیے
گستاخ (1)۔۔مرزا مدثر نواز/فنی مہارت اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں ہم چاہے کتنے ہی پسماندہ کیوں نہ ہوں ،اور ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود معیشت قرض کے سہارے چل رہی ہو‘ دو شعبوں میں ہم بڑے ماہر اور خود کفیل ہیں‘ کسی کو کسی بھی بیماری کے متعلق نسخہ تجویز کرنے اور مفتی بن کر فتوٰی صادر کرنے میں۔← مزید پڑھیے
سائیکل چمپئن سے آج کی نسل یقیناََ واقف نہیں ہو گی‘ کچھ لوگوں کا ایک گروہ ہوتا جو گاؤں کے باہر کھلی جگہ کا انتخاب کرتے اور ایک گول دائرہ بنا کر اس کے گرد لکڑیوں کا جنگلا لگا لیتے‘← مزید پڑھیے
گئے دنوں کی یادیں (10)۔۔مرزا مدثر نواز/آج کے دور میں تقریباً ہر کسی کے پاس موبائل فون میں ڈیجیٹل کیمرہ موجود ہے جس سے لاتعداد تصاویر بنائی جا سکتی ہیں جبکہ ماضی میں یہ عیاشی نہیں تھی۔ اینا لاگ یا← مزید پڑھیے
بحث و جستجو۔۔مرزا مدثر نواز/ہدایت کس کو ملتی ہے؟ طالبعلم نے اتالیق سے سوال کیا۔ قریب ہی لکڑی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا تھا‘ اتالیق نے اس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا اس میں سے کرنٹ کا بہاؤ ممکن ہے؟ نہیں‘ نارمل وولٹیج کے پریشر سے اس میں سے کرنٹ کا بہاؤ ممکن نہیں ہے← مزید پڑھیے
عید: نوے کی دہائی میں چونکہ ابھی انٹر نیٹ اور موبائل کا دور دورہ نہیں تھا لہٰذا عید مبارک کہنے کے لیے سوشل میڈیا کی بجائے دوسرے ذرائع کا استعمال کیا جاتا،جن سے آج کی نسل یقیناً نا آشنا ہو← مزید پڑھیے
گئے دنوں کی یادیں (7)۔۔مرزا مدثر نواز/کسی بھی دوسرے تہوار کی طرح شادی بیاہ میں بھی بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور ایسے مواقع پر وہ اپنی موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شادی ہالز اور مارکیز کی موجودگی سے پہلے گاؤں میں کسی خالی جگہ پر تنبوں، کناتیں اور کرسیاں لگائی جاتی تھیں← مزید پڑھیے