گئے دنوں کی یادیں (10)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں (10)۔۔مرزا مدثر نواز/آج کے دور میں تقریباً ہر کسی کے پاس موبائل فون میں ڈیجیٹل کیمرہ موجود ہے جس سے لاتعداد تصاویر بنائی جا سکتی ہیں جبکہ ماضی میں یہ عیاشی نہیں تھی۔ اینا لاگ یا فلم والا کیمرہ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا‘ جو لوگ بیرون ملک ہوتے ان کے پاس عموماً ہوتا‘ تحفہ کے طور پر بھی کیمرہ عنایت کیا جاتا۔ تصاویر بنانے کے لیے آپ کو فوٹو سٹوڈیو شاپ سے ایک فلم خریدنا ہوتی جس سے شاید چوبیس تصاویر بنائی جا سکتیں‘ جب فلم کو ڈویلپ کروایا جاتا تو دو یا تین تصاویر تو لازماً خراب نکلتیں۔ پرانی فلموں یا فوٹیج میں آپ کو کہیں نہ کہیں سونی‘ کوڈک یا توشیبا کا بورڈ ضرور نظر آئے گا‘ ان دنوں یہ کمپنیاں ایڈورٹائزنگ پر بہت زیادہ پیسہ خرچہ کرتی تھیں جیسا کہ ایک دور میں سگریٹ کمپنیاں اور پھر بعد میں موبائل کمپنیاں۔ایک وقت میں فوٹو سٹوڈیو کا کاروبار انتہائی منافع بخش تصور کیا جاتا اور ایک ہی بازار میں کئی دکانیں نظر آتیں جن کے اوپر آپ کو کیمرہ و اس کی فلمیں بنانے والی کمپنیوں کی تشہیر نظر آتی‘ اس کے علاوہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں بھی کافی اشتہارات دیکھنے کو ملتے۔ ابھی یہ سب کچھ کل کی باتیں لگتا ہے لیکن اتنی جلدی و تیزی سے تبدیلی آئے گی‘ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔

موجودہ زمانے میں تفریحی مواد سمٹ کر آپ کے ہاتھ میں آ چکا ہے‘ جسے دیکھو موبائل کے ساتھ مصروف ہے‘ کسی کے پاس بیٹھنے کا نہ گپ شپ کا مزہ۔ نوے کی دہائی یا اس سے پہلے کی بات کی جائے تو تفریح کے دوسرے ذرائع ہوتے جو اب آہستہ آہستہ دم توڑ رہے ہیں۔ ان دنوں چونکہ موبائل فون نہیں تھا لہٰذا لوگوں کے پاس فراغت زیادہ تھی‘ لوگ گھنٹوں ریچھ و کتے‘ سانپ و نیولے کی لڑائی دیکھتے‘ بندر کا تماشا اور دوسرے تماشے لگانے والوں کے پاس گزار دیتے۔ بیلوں کے اکھاڑوں میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کرتی‘ مقابلوں میں حصہ لینے والے بیلوں کی سارا سال خدمت کی جاتی اور کافی سرمایہ لگایا جاتا تا کہ وہ انعامی رقم کے حقدار ٹھہر سکیں۔

میلے برصغیر کی ثقافت کا ایک اہم جز ہیں‘ آج بھی لوگ میلوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن بہت کم تعداد میں جبکہ ماضی میں یہ تفریح کا بہت اہم ذریعہ ہوتے‘ پرائمری کی ایک کلاس میں اردو کی کتاب میں ”میلہ شالامار کا“ کے عنوان سے ایک کہانی ہوتی جسے ہم بڑے شوق سے پڑھتے۔ ہمارے ہمسایہ گاؤں میں آج بھی وہ میلہ لگتا ہے جس میں شرکت کا بے حد شوق ہوتا لیکن اب تو عرصہ ہو گیا اسے دیکھے ہوئے۔ میلہ کی مقررہ تاریخ سے بہت پہلے سٹال لگانے والے اپنے لیے جگہ مخصوص کر لیتے‘ بڑے بڑے مختلف قسم کے جھولے بھی نظر آنا شروع ہو جاتے۔ میلہ والے دن بڑی مشکل سے سکول میں آدھا دن کے بعد چھٹی دے دی جاتی جس پر ہیڈ ماسٹر بڑی مشکل سے راضی ہوتا۔ ان دنوں پرائیویٹ سواریاں بہت کم ہوتی تھیں لہٰذا پبلک ٹرانسپورٹ پر بے پناہ رش ہوتا‘ بسوں کی چھتیں تک سارا دن مسافروں سے بھری رہتیں‘ لوگ سائیکلوں‘ گدھا گاڑی‘ خچر گاڑی اور دوسرے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے میلہ میں پہنچتے۔ بچے میلہ میں شرکت کے لیے گھر والوں سے پیسے اور اجازت کی ضد کرتے‘ کچھ کو اجازت مل جاتی اور کچھ رو کر دن گزار دیتے۔

وہ زمانہ چونکہ سائیکل کا تھا لہٰذا سائیکلوں کے متعدد سٹینڈ ہوتے جہاں فیس لے کر پارکنگ کی اجازت دی جاتی‘ موٹر سائیکلوں کا بھی سٹینڈ ہوتا لیکن ان دنوں بہت کم لوگوں کے پاس موٹر سائیکل ہوتا‘ کچھ لوگ اپنے جاننے والوں کے گھر سائیکل یا موٹر سائیکل پارک کر دیتے۔ میلہ میں بے پناہ رش ہوتا‘ بچے کھلونے والے سٹالز پر کھلونا پسٹل‘ گاڑیاں‘ گیند‘ بلا و دوسری چیزیں خریدتے‘ خواتین کے لیے ایک علیحدٰہ بازار مختص ہوتا جہاں سے وہ اپنی پسند کی خریداری کرتیں‘ بچے و بڑے مختلف جھولوں پر بیٹھتے اور جب جھولا چلتا تو چیخیں سنائی دیتیں‘ چھوٹے چڑیا گھر بھی وہاں پر ہوتے جن میں مختلف قسم کے جانور و پرندے لائے جاتے جن کو بچے بڑے شوق سے دیکھتے‘ موت کے کنوؤں پر بے انتہا رش ہوتا‘ کھانے کی اشیاء میں پکوڑے‘ سموسے‘ چنا چاٹ‘ سموسہ چاٹ‘ فروٹ چاٹ‘ جلیبیاں‘ ختائیاں‘ نمک پارے‘ مالٹے و انار و گنے کے جوسزوغیرہ کے بہت زیادہ سٹالز ہوتے جن پر مخصوص ریکارڈنگ بھی چل رہی ہوتی‘ کئی حکیم و نیم حکیم بھی اپنے اپنے مجمعے لگائے ہوتے‘ کچھ نو سرباز بھی سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہوتے۔ سارا دن گھومنے کے بعد جب لوگ رات گئے گھروں کو لوٹتے تو سائیکل یا دوسری سواری پر کچھ گنے اور جلیبیاں لازمی ہوتیں۔ یوں وہ دن بھی گزر جاتاجس کا لوگ کئی دنوں سے انتظار کر رہے ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رات کو لوگ ایک دوسرے کے گھر جا کر گپیں لگاتے‘ حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے‘ حقہ پیتے‘ لڑکے کسی بیٹھک میں لڈو یا تاش کھیلتے‘ ماہیے و گانے کی محفل سجاتے یا پھر گنے کی فصل کے عین درمیان بیٹھ کر چوری چھپے گنے چوپ کر چھلکوں کے ڈھیر لگاتے رہتے۔ ایک دفعہ میں تارہ گڑھ‘ چک نمبرچوالیس‘ پتوکی میں ایک دوست کا مہمان بنا‘ گاؤں کے مڈل سکول میں ایک استاد جن کا تعلق فیصل آباد سے تھا‘ رہا کرتے جن کے پاس رات کو گاؤں کے بچے پڑھنے آتے تھے۔ دوست نے محلے والے تمام لڑکوں کو سکول میں آنے کی دعوت دی‘ رات کو سب لڑکے وہاں جمع ہو گئے‘ کچھ میٹھے چاول پکانے میں مصروف ہو گئے‘ ایک نے تھال بجانا شروع کر دیا اور دوسرے نے میرے فرمائشی گانے گانا شروع کر دیئے جبکہ باقی تالیاں بجانے اور داد دینے میں مصروف ہو گئے‘ رات گئے محفل اختتام پذیر ہوئی جس کو یاد کر کے دل آج بھی خوش ہوتا ہے۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply