زندہ قوم/مرزا مدثر نواز

دوسری جنگِ عظیم میں جاپان مغلوب ہُوا اور اسے نہ چاہتے ہوئے بھی غالب کے تمام اقدامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس نے اپنی ہتک آمیز شکست کا بدلہ لینے کے لیے ایک نئے اور منفرد راستے کا انتخاب کیا اور کچھ ہی عرصہ بعد امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں بازی لے گیا‘ اس کی الیکٹرانکس مصنوعات امریکی منڈیوں پر چھا گئیں اور امریکہ کے تقریباََ ہر گھر کی ترجیح بن گئیں۔ لیکن یہ سب کچھ پلک جھپکنے میں نہیں ہُوا بلکہ اس کے پیچھے وہ قربانیاں‘ تربیت اور حب الوطنی ہے جسکی بدولت جاپانی قوم نے ایک زندہ قوم میں پائے جانے والی تمام خصوصیات کو اپنایا‘ انہوں نے گفتار کا غازی بننے کی بجائے عمل کو ترجیح دی۔ اسی طرح جنگ سے تباہ حال جرمنی کچھ عرصہ بعد ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاید ہنگری کی معیشت دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ زبوں حالی کا شکار ہوئی لیکن بہت کم عرصہ میں انہوں نے بے لگام مہنگائی‘ بے روزگاری اور کساد بازاری پر قابو پا لیا۔

زندہ قوموں کے سامنے مقاصد ہوتے ہیں‘ ان کا ویژن اور مشن ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ دن رات ایک کر دیتے ہیں اور ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں‘ وہ طویل المدتی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ ہر قیمت پر قانون کی عملداری یقینی بناتے ہیں‘ ہجوم کبھی بھی ترقی نہیں کرتا بلکہ ایک متحد قوم ترقی کرتی ہے‘ لیڈران اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں‘ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ذمہ داریاں پوری کرتا ہے اور غریب و لاچار عوام پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کی تگ و دو میں نہیں پڑتا۔ سستی انرجی‘ سکیورٹی‘ بدعنوانی کا خاتمہ اور قانون کی حکمرانی و عملداری‘ ترقی کے بنیادی ستون ہیں۔ جو قوم اپنی سمت ہی متعین نہ کر سکے‘ وہ کیا ترقی کرے گی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک صاحب الرائے و دانا شخص نے زندہ و مردہ قوموں کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ دورِ زوال میں قومیں توحید پرستی کے مقام سے گِر کر اکابر پرستی کی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں‘ قوم جب زندہ ہو تو وہ اقدار کی پرستار ہو تی ہے اور جب وہ مردہ ہو جائے تو اس کے قومی اکابر اس کی پرستاری کا مرکز بن جاتے ہیں۔ زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم لوگوں کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم گزرے ہوئے ماضی میں۔ زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اُٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر۔ زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم کو ہر ایک اپنا دشمن۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل اور عدم برداشت۔ جب کسی قوم کے افراد میں وہ علامتیں ظاہر ہو جائیں جو مردہ قوم کی ہُوا کرتی ہیں تو اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ ساری طاقت تربیت اور تیاری کے محاذ پر لگائی جائے‘ افراد میں ازسر ِ نو زندگی کاجذبہ  پیدا کرنا ہی اس وقت کرنے کا اصل کام بن جاتا ہے۔ دورِ عروج کا قومی پروگرام پیش قدمی ہوتا ہے اور دورِ زوال کا قومی پروگرام تیاری۔ دورِ عروج میں آ گے بڑھنے کا نام عمل ہوتا ہے اور دورِ زوال میں پیچھے ہٹنے کا نام عمل۔ دورِ عروج میں قوم اپنے اختتام میں ہوتی ہے اور دورِ زوال میں وہ دوبارہ اپنے آ غاز میں پہنچ جاتی ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply