گستاخ (1)۔۔مرزا مدثر نواز

گستاخ (1)۔۔مرزا مدثر نواز/فنی مہارت اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں ہم چاہے کتنے  ہی پسماندہ کیوں نہ ہوں ،اور ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود معیشت قرض کے سہارے چل رہی ہو‘ دو شعبوں میں ہم بڑے ماہر اور خود کفیل ہیں‘ کسی کو کسی بھی بیماری کے متعلق نسخہ تجویز کرنے اور مفتی بن کر فتوٰی صادر کرنے میں۔ کسی کی رائے میری سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تو پھر مجھے کوئی نہیں روک سکتا کہ میں اسے کافر‘ مشرک‘ گستاخ وغیرہ کے القابات سے نہ نواز دوں۔ ایک فرد کا ایسی رائے کا کھلم کھلا اظہار اور پھر جج بن کر سزا تجویز کر دینااور ہجوم کے ذریعے اس پر عمل در آمد بھی کروا دینا ،دراصل ریاست کی کمزوری ہے۔ خاص ایام جیسا کہ الیکشن  ڈے‘ جلسہ و جلوس وغیرہ میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے پیچھے اکثر اوقات عرصہ درا ز سے دبی ہوئی چپقلش کارفرما ہوتی ہے اور ایسے مواقع پر  سینوں میں چُھپا حسد اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا حیلہ فراہم کرتے ہیں۔ اسلام کے شرعی نظام کی روسے کسی جرم کے لیے ایسی انارکی جائز نہیں ہو سکتی کہ کوئی فرد بیک وقت خود ہی مدعی اور جج بن جائے۔ تعزیر اور سیاست کے تمام احکام کا تعلق قضا سے ہے یعنی آج کل کی بول چال میں عدالتی کارروائی سے۔ کسی فرد کو بھی اپنی جگہ اختیار نہیں کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لے اور جس کسی کو اپنے نزدیک مجرم سمجھے سزا دے دے۔ یہ کام صرف حکومت اور عدالت کا ہے اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو وہ اسلامی قانون کی رو سے اسی طرح سزا کا مستحق ہو گاجس طرح ایک قانون کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم ہو سکتا ہے۔

جب کبھی تعزیر و سیاست کے معاملہ میں اس طرح کی تعبیر ِ بیان اختیار کی جاتی ہے کہ اسلام کا قانون یہ ہے اور شریعت اسلامی کا حکم یہ ہے تو قدرتی طور پر ان تمام لوگوں کو جو اسلام کے نظام شرع سے واقفیت نہیں رکھتے‘ ایک سخت غلط فہمی واقع ہو جاتی ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح اسلام نے اپنے پیرو کار وں  کو نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے‘ اسی طرح تعزیر و سیاست کے بھی یہ احکام دیئے ہیں مثلاََ جب ایک غیر مسلم سنتا ہے کہ اسلام کے قانون میں فلاں جرم کی یہ سزا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ اسلام نے اپنے پیر ؤوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں کوئی ایسا فعل ہوتا دیکھیں تو فوراً چاقو نکالیں اور یہ فعل انجام دینے والے کا گلا کاٹ کے رکھ دیں حالانکہ اسلام کی نسبت ایسی مجنونانہ تعلیم کا تصور بھی کرنا‘ اس کے خلاف سخت سے سخت اتہام ہے۔ اسلام کے نزدیک تو انسان کی زندگی سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز بھی محترم نہیں۔ وہ قتل نفس کو انسان کی سب سے بڑی شقاوت قرار دیتا ہے۔ اس کی کتاب اپنے معجزانہ اندازِ  بلاغت میں اعلان کرتی ہے کہ نوع انسانی کے کسی ایک فرد کا قتل‘ فرد کا قتل نہیں ہے‘ نوع کا قتل ہے:
ترجمہ: جس کسی نے کسی انسان کو بغیر ان دو حالتوں کے کہ قصاص لینا ہو یا قتل و خونریزی اور ظلم و فساد روکنا ہو‘ قتل کر ڈالا تو وہ صرف ایک جان ہی کا قاتل نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کا قاتل ہے اور اس طرح جس کسی نے ایک انسان کو ہلاکت سے بچا لیا تو اس نے صرف ایک فرد انسانی ہی کی جان نہیں بچائی بلکہ تمام نوع انسانی کو زندگی بخشی۔ (المائدہ)

بلاشبہ اسلام نے خاص خاص صورتوں میں قتل کی اجازت دی ہے۔ صرف اجازت ہی نہیں دی ہے بلکہ بغیر کسی جذبہ اعتذار کے کہا جاسکتا ہے کہ ترغیب دی ہے لیکن وہ صورتیں وہی ہیں جن میں نہ صرف اسلام نے بلکہ دنیا کے عالمگیر اخلاق و انسانیت نے بھی قتل انسانی کے ناگزیر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ قتل انسانی کی یہ ناگزیر صورتیں اس لیے گوارا نہیں کی گئی ہیں کہ انسانوں کا قتل کیا جائے بلکہ اس لیے کہ انسانوں کو بچایا جائے:
ترجمہ: ایسا قتل جو قاتلوں سے انسانوں کو بچانے کے لیے ہو‘ اگرچہ بظاہر خون بہانا ہے لیکن فی الحقیقت اسی میں انسانی زندگی کی حفاظت پوشیدہ ہے۔ (البقرہ)

قرآن بتلاتا ہے کہ یہ ناگزیر صورتیں تین ہیں: جنگ‘ قصاص اور ایسے جرائم کا انسداد جن کا انسداد بغیر انتہائی سزا کے ممکن نہ ہو۔ ان تین صورتوں کے علاوہ کسی حال میں بھی اسلام خدا کی اس بنائی ہوئی مخلوق کا خون بہانا برداشت نہیں کر سکتا جس کا نام انسان ہے۔ جو شخص اس سے زیادہ قتل انسانی کا جواز اس کی طرف منسوب کرتا ہے وہ یا تو اسلام سے قطعاً بے خبر ہے یا اسلام پر تہمت لگانے میں اسے عار نہیں۔(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ: اسلام و قتل انسان از ابوالکلام آزاد

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply