منہ زیادہ یا ناک (حصّہ اوّل)

منہ زیادہ یا ناک (حصّہ اوّل)/ملکہ کو باغبانی کا جنون کی حد تک شوق تھا‘ اسے پھولدار و پھلدار پودوں سے حد درجہ محبت تھی۔ بادشاہ نے اپنی چہیتی ملکہ کے اس شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع رقبہ پر ایک انتہائی خوبصورت باغ لگوایا جس میں قِسم قِسم کے پودے اکٹھے کیے گئے‘ اردگرد کی ریاستوں سے بھی پودے منگوائے گئے۔ کچھ عرصہ بعد باغ میں پھل و پھول لگنے شروع ہوگئے‘ جب پھل پک جاتے تو پرندے اکثر پھلوں پر اپنی چونچ مار کر انہیں خراب کر دیتے‘ جانور بھی کبھی کبھار پودوں کو نقصان پہنچاتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر ملکہ کو بہت دکھ ہوتا‘ ایک دفعہ اس نے تنگ آ کر بادشاہ سے شکایت کر دی اور پرندوں و جانوروں پر بھاری ٹیکس و جرمانہ یا پھر انہیں قید کرنے کی استدعاکی۔ بادشاہ‘ ملکہ کی بات کو کیسے ٹال سکتا تھا‘ لہٰذا دربار میں اس تجویز کو قانون کا درجہ دینے کے لیے بحث و مباحثہ کا آغاز کر دیا گیا۔ بادشاہوں کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہی قانون ہوتے ہیں لیکن یہ بادشاہ کسی حد تک جمہوری رویہ رکھتا تھا‘ دوسرے الفاظ میں ملک میں جمہوری روایات پر بات ہونا شروع ہو گئی تھی اور بادشاہ اپنا تخت بچانے کے لیے ایسے اقدامات پر مجبور تھا۔ہماری جمہوریت پسند جماعتیں بھی اسی قسم کی بادشاہتیں ہیں جو مکمل آمریت کی صورت میں آگے بڑھ رہی ہیں سوائے جے آئی کے۔ پرندوں و جانوروں کوبھی اس کی خبر ہو گئی اور انہوں نے دربار کے باہر احتجاج شروع کر دیا۔ جب پُرامن احتجاج نے طول پکڑا تو اہل اقتدار کی طرف سے احتجاجی ٹولے کو اپنے منتخب نمائندے کے ذریعے مذاکرات کی دعوت دی گئی جسے فوراً  ہی قبول کر لیا گیا۔

اگلے مرحلے میں پرندوں و جانوروں کو ایک نہایت ہی عقلمند و دانشور مذاکرات کار کا چناؤ کرناتھا۔ سب سے پہلے شیر کو دعوت دی گئی جس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ  وہ ذرا غصیلہ ہے‘ لہٰذا مذاکرات کے دوران اگر کسی معاملے میں اسے غصہ آ گیااور کسی کو ایک آدھی لگا دی تو کمیونٹی کے لیے یہ نقصان دہ ہو گا‘ شیر کے بعد لومڑی نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کی جبلت میں شرارت ہے‘ اگر اس نے کوئی غیر اخلاقی شرارت کر دی تو سب متاثر ہوں گے‘ بندر نے بھی یہ کہہ کر قبول نہ کیاکہ وہ کہیں بھی ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا‘ کوّے نے کہا کہ وہ کائیں کائیں کرنے سے باز نہیں رہ سکتا اور شور شرابہ محفل کے آداب کے خلاف ہے‘ لہٰذا اس کی طرف سے تو نہ ہی سمجھو۔ بہر حال قصہ مختصرایک پرندہ چڑا بڑی مشکل سے مذاکرات کار کا کردار کرنے پر راضی ہو گیا۔ دوسری پارٹی کو اس کا نام دے دیا گیا‘ دن ،وقت اور مقام طے ہو گیااور دونوں پارٹیاں بے چینی سے انتظار کرنے لگیں۔

پہلے سے طے شدہ مقام پر اس دن معمول سے زیادہ چہل پہل تھی‘ ہر طرف گہما گہمی اور چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ بادشاہ و درباریوں کے چہرے پر غصہ عیاں تھا کیونکہ چڑا مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹپوشیاں لگاتا ہوا حاضر ہو گیا۔ بادشاہ نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا اور انتہائی نا مناسب لہجے میں کہا کہ تمہیں بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہونے کے آداب نہیں آتے‘ کس نے تمہیں اپنا نمائندہ بنا دیا ہے‘ ایک تو تم نے ہماراقیمتی وقت برباد کیا‘ اوپر سے درباری آداب سے ناآشنا۔ چڑے نے اپنی غلطی تسلیم کی اور تمام حاضرین و درباریوں سے معافی مانگی‘ اس کے بعد بادشاہ سے مخاطب ہوا کہ عالی جان آپ کا اقبال بلند ہو! مجھے یہ دیکھ کر انتہائی دکھ پہنچا ہے کہ یہاں پر پروٹوکول کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا گیا‘ جب بادشاہ اپنے دربار میں کسی کو آنے کی دعوت دیتے ہیں تو مہمانوں کے لیے سرخ قالین بچھائے جاتے ہیں‘ راستے میں پھول سجائے جاتے ہیں اور انہیں اچھے طریقے سے خوش آمدید کہا جاتا ہے جبکہ یہاں ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بادشاہ یہ سن کر شرمندہ ہوا اور پروٹوکول والوں کی سرزنش کی‘ فوراً ہی سرخ قالین بچھا دیئے گئے اور سرخ پھولوں کا بندوبست کیا گیا۔ اس کے بعد چڑے یا چدے نے دوبارہ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں ہر گز دیر سے نہ پہنچتا لیکن راستے میں مجھے ایک جھگڑے کو نمٹانا پڑ گیا جس کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ ہوا یوں کہ جب میں یہاں آ رہا تھا تو قریب ہی دو آدمی اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ روئے زمین پر مرد زیادہ ہیں یا عورتیں؟ دونوں اپنے دلائل میں بڑے سخت تھے اور ایک دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے صورتحال دیکھی تو ان کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھا جس پر دونوں قائل ہو گئے اور یوں جھگڑا ختم ہو گیا۔

بادشاہ و حاضرین بڑے حیران ہوئے کہ چدے نے ایسا کیا فیصلہ کیا ہو گااور اتنی بڑی دنیا میں بغیر مردم شماری کے کیسے پتہ چلے کہ مرد زیادہ ہیں یا خواتین؟ بادشاہ نے پوچھا کہ پھر تم نے کیا فیصلہ کیا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

چڑے نے جواب دیا کہ عالی جاں ! میں نے صرف اتنا کہا کہ عورتیں تو جو ہیں‘ وہ تو ہیں ہی ہیں لیکن جو مرد عورتوں کی غلط باتوں میں آ جائیں‘ اپنی بیویوں کی سچی جھوٹی باتیں سن کر اپنے والدین کی شان میں گستاخی کرنا شروع کر دیں‘ ہر بات میں ہاں میں ہاں ملائیں‘ جن کی اپنی کوئی سوچ نہ ہو‘ جو غلط درست کی تمیز کیے بغیر اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لیے تمام اخلاقی قوانین کو روند ڈالیں اور اپنے سے کمزور پر ظلم ڈھانا شروع کر دیں‘ جو مکمل طور پر عورتوں کی مٹھی و قابو میں ہوں اور وہ انہیں اپنے اشاروں پر نچاتی پھریں تو پھر ایسے مرد بھی تو عورتیں ہی ہوئے ناں‘ لہٰذا دنیا میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بادشاہ نے یہ تخلیق شدہ کہانی سنی تو سمجھ گیا کہ چدے نے یہ بات اس پر لگائی ہے اور فوراً حکم دیا کہ پرندوں و جانوروں پر آج کے بعد کوئی ٹیکس نہیں ہو گا اور نہ انہیں اس پاداش میں قید کیا جائے گا۔ فیصلہ سن کر پرندوں و جانوروں نے جشن منایا‘ نعرے لگائے اور چڑے کی ذہانت کو سراہا۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply