وہ بھی جنسی ہراسگی کا شکار ہوا (3 )۔۔مرزا مدثر نواز

وہ ایک شریف النفس‘ سادہ طبع‘ مثبت سوچ کا حامل‘ معاشرتی پیچ و خم و بھول بھلیوں سے نا آشنا‘ شرمیلا‘ میل جول سے ہچکچانے والا‘ کمزور و لاغر اندام‘ دبلا پتلا‘ سست الوجود اور کسل مند لیکن ایک خوش شکل لڑکا تھا۔ میٹرک تک اس نے دور دراز اور اکیلے سفر نہیں کیا تھا۔ میٹرک کا رزلٹ آنے کے بعد وہ قریبی کالج میں داخلہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھا‘ اسی سلسلے میں ایک شخص کے ساتھ ملاقات کر کے اس سے کام نہ کرنے اور فقط لارا  لگانے کی میٹھی گولی حاصل کر کے کنٹونمنٹ کے خوبصورت و صاف ستھرے و سرسبز علاقہ میں ایک جگہ بس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اگست 1999کی ایک گرم دوپہر تھی۔ اسی اثناء میں سر پر کروشیے  سے بنی جالی دار سفید ٹوپی پہنے ایک سائیکل سوار نے اس کے قریب آ کر بریک لگا دی‘ ظاہری حلیے اور سائیکل پر لٹکے کھانے کے سازوسامان کی بدولت وہ یقیناً کسی کا بیٹ مین لگتا تھا۔ سائیکل سوار بریک لگاتے ہی لڑکے سے مخاطب ہوا کہ کہاں جانا ہے‘ آؤ میں تمہیں فلاں جگہ تک چھوڑ دوں‘ سائیکل کے پیچھے بیٹھو‘ میں تمہیں کینٹ کی سیر کراتا ہوں‘ گھومتے پھرتے ہیں اور اس کے بعد ہم آئس کریم کھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

لڑکے نے اپنے بڑوں کی نصیحت کو یاد کرتے ہوئے کہ کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی‘ اس کے ساتھ نہیں جانا اور اس کے ساتھ ساتھ اجنبی کی آنکھوں سے ٹپکتی بدنیتی کو بھانپتے ہوئے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور اسے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ اس کے باوجود سائیکل سوار وہیں کھڑا رہا اور لڑکے کو مختلف حیلوں و لالچ سے ورغلانے کی ناکام کوشش کرتا رہا تاوقتیکہ بس آئی اور سہما و ڈرا ہوا لڑکا جلدی سے اس پر سوار ہو گیا۔

اسے فورسز میں شمولیت کا بے حد شوق تھا‘ اتنا ہی جتنا پی ٹی وی کے مقبول ترین‘ سدا بہار و شہرہ آفاق ڈرامہ ”قراۃ العین“ میں دکھائے گئے کردار کو تھا‘ اس ڈرامے کو دیکھ کر آج بھی آنکھیں نہ چاہتے ہوئے بھی نم ہو جاتی ہیں۔ انٹر کرنے کے بعد وہ ایک کنٹونمنٹ ایریا میں واقع نیوی کے سلیکشن و ریکروٹمنٹ سنٹر میں ابتدائی ٹیسٹ دینے کے بعد سڑک کنارے پیدل چل رہا تھا۔ وہ سن 2003میں سردیوں کاایک انتہائی خوبصورت و اجلا ہوا دن تھا۔ کنٹونمنٹ کے صاف ستھرے‘ سر سبز‘ خوبصورت و ٹریفک کے شور سے پاک علاقے میں دھوپ و شاندار موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ پیدل ہی لاری اڈے  کی طرف رواں دواں تھا کہ ایک سائیکل سوار شخص نے ناپسندیدہ حرکات و سکنات سے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ظاہری حلیے سے وہ شخص بیٹ مین دکھائی دیتا تھا جو اسے اس کے ساتھ چلنے کے اشارے کر رہا تھا۔ لڑکے نے تیوری چڑھائی‘ صلواتیں سنائیں اور سائیکل سوار کو کافی برا بھلا کہا لیکن وہ اسے کافی دیر مسلسل تنگ کرتا رہا تا وقتیکہ مین شاہراہ نمودار ہوئی۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی آج وہ اہمیت و عروج نہیں ہے جتنا کہ سن 2000کی پہلی دہائی تک تھا۔ نجی گاڑیاں خال خال تھیں اور طلباء کالجز کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ ہی استعمال کرتے تھے۔ اس دور میں طلبا  کو کچھ ایسے اشخاص سے بھی واسطہ پڑتا جو ناپسندیدہ افعال و عادات کا شکار ہوتے اور انہی بری عادات کی بدولت اکثر بسوں میں بے عزت و ذلت  و خوار ی کا سامنا کرتے۔ یہ سن2003کی بات ہے جب دو کم عمر دوست کسی کام کی غرض سے گوجرانوالہ شہر گئے اور واپسی کے لیے ایک بس میں سوار ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک شخص آ کر بیٹھ گیا اور بے تکلف گفتگو شروع کر دی۔ اجنبی شخص نے اپنی منزل جہلم بتائی جبکہ دونوں دوستوں کی منزل اس سے پہلے تھی۔ اس شخص کی گفتگو سے ان کو اندازہ ہو نے لگا کہ یہ شخص اچھی عادات کا مالک نہیں۔ راستے میں وہ شخص ساتھ بیٹھے لڑکے کے جسم کو ہاتھ سے چھونے کا دکھاوا کرتا رہا لیکن چھونے کی ہمت نہ کر سکا۔ دونوں لڑکے اس وقت چونک گئے جب اس شخص نے انہیں ایک مشہور ہوٹل میں رات گزارنے کی پیشکش کچھ اس طرح کی کہ ”آج فلاں ہوٹل میں رات گزارتے ہیں‘ کھائیں پیئیں گے‘ رات کو وی سی آر پر انڈین فلمیں دیکھیں گے“ اور صبح تم اپنے گھر چلے جانا۔ یہ سن کر لڑکوں کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے‘ غصہ سے اس کی طرف دیکھا اور نامناسب لہجے میں اسے کہا کہ ہوٹل کو چھوڑیں‘ ہمارے گاؤں چلیں‘ رات وہاں گزاریں‘ فلمیں دیکھیں اور صبح گھر چلے جائیں‘ ہم وہاں آپ کی اچھی مہمان نوازی کریں گے۔ یہ سن کر وہ سمجھ گیا کہ یہاں دال گلنے والی نہیں اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ایک طرف ہو کر خاموشی سے بیٹھ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے معاشرے میں ہم جنس پرستی‘ جنسی ہراسانی‘ روز روشن کی طرح عیاں ایک بدترین حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ توپک زما قانون‘ طاقتور و بااثر افراد جیسے الفاظ‘ سیاسی اثر و رسوخ‘ قانون کی کمزوری اور حکمرانی نہ ہونا‘ عدالتی کرپشن و نا اہلی‘ عدم تحفظ کا خوف جیسے ناسور ان جرائم میں کمی کی بجائے ان میں دن بدن اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ جدید دور میں چونکہ دنیا سمٹ کر آپ کے ہاتھ میں ایک کلک کی دوری پر آ گئی ہے‘ لہٰذا والدین پر اب پہلے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں‘ ان کی حرکات و سکنات کی مسلسل اور حتی الوسع نگرانی کریں‘ بچوں کے معاملے پر کسی قریبی رشتہ دار پر بھی تکیہ نہ کریں‘ گھریلو ملازمین کی جانب کبھی بھی آنکھیں بند نہ کریں اور بچوں کے معاملے پر ان پر خاص نظر رکھیں اور تنہا نہ چھوڑیں۔ بچے جونہی سکول کی عمر کو پہنچیں‘ انہیں بتانے و سمجھانے کی کوشش کریں کہ ان کے پرائیویٹ پارٹس کون سے ہیں جنہیں چھونے کی کسی کو بھی اجازت نہیں‘ اگر کوئی تنہائی یا سنسان جگہ پر پریشان کرے تو خاموش نہ رہیں بلکہ شور مچائیں اور ذہنی بیماروں کی نشاندہی کریں چاہے وہ کوئی قریبی عزیز‘ استاد یا اجنبی ہو۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply