وہ بھی جنسی ہراسگی کا شکار ہوا (2)۔۔مرزا مدثر نواز

تیمور کا پہلا استاد ملّا علی بیگ تھا۔ ایک دفعہ ملّا علی بیگ نے تیمور کے باپ کو بلا کر کہا کہ اس بچے کی قدر جان،یہ نا  صرف ذہین اور دوسرے بچوں سے بہت آگے ہے بلکہ اس میں ناقابلِ  یقین صلاحیتیں ہیں۔ جب تیمور کی عمر سات سال ہوئی تو اسے ایک دوسرے مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔ وہاں اس کے استاد شیخ شمس الدین تھے۔ وہ اپنے شاگردوں کو عام تعلیم کے علاوہ قرآن سکھاتے اور اشعار بھی یاد کرواتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ قرآن کی تعلیم ہمیشہ سورۃ ”الشمس“ سے شروع کراتے‘ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ خود ان کا نام شمس تھا۔ علم کے حصول میں تیمور کی کارکردگی اس قدر زبردست تھی کہ شیخ شمس الدین کے مدرسے میں داخل ہوئے ابھی تین سال ہی ہوئے تھے کہ اس نے پورا قرآن حفظ کر لیا‘ گویا صرف دس سال کی عمر میں وہ حافظ قرآن بن چکا تھا۔ شمس الدین نے تیمور کے والد سے کہا کہ میرے پاس جتنا علم تھا‘ میں نے تیرے بیٹے کو منتقل کر دیا‘ اب میرے پاس اس کی دانش میں اضافہ کرنے کے لیے مزید کچھ بھی نہیں۔ بہتر ہے اب اسے کسی اور استاد کے پاس حصول تعلیم کے لیے بھیج دو۔

چنانچہ تیمور کے والد نے اسے ”عبداللہ قطب“ کے مدرسے میں داخل کروا دیا۔ عبداللہ قطب ایک مشہور عارف‘ دانشوراور انتہائی پرہیز گار انسان تھے۔ شہر کے معززاور اعلیٰ طبقات کے لوگ اپنے بچوں کو ان کے پاس حصول تعلیم کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ تیمور جیسے جیسے رشد و تعلیم کی منزلیں طے کر رہا تھا‘ اس کے حسن اور وجاہت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ 14سال کی عمر میں اس کا شمار ماوراء النہر کے خوبرو نوجوانوں میں ہونے لگا تھا۔ عبداللہ قطب کے شاگردوں میں ایک ”یولاش“ نامی لڑکا بھی تھا جس کا تعلق ترک قوم سے تھا۔ یولاش کچھ ناپسندیدہ افعال کا عادی تھا اور اکثر تیمور کو ورغلانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ تیمور نے کئی مرتبہ یولاش سے کہا کہ وہ اس سے ایسی باتیں نہ کرے مگر وہ باز نہ آیااور مدرسے کے دوسرے لڑکوں کے سامنے بھی تیمور کو ورغلانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس سے یہ ہوا کہ مدرسے کے دوسرے لڑکے بھی تیمور کا تمسخر اڑانے لگے۔

ایک دن مدرسے سے واپسی پر یولاش تیمور کا پیچھا کرتا ہوا چراگاہ تک آ پہنچا۔ وہ جانتا تھا کہ تیمور گھڑ سواری اور تیر اندازی کی مشق کرنے چراگاہ جاتا ہے۔ تا ہم اس وقت تک تیمور نے شمشیر زنی کی تربیت حاصل کرنا بھی شروع کر دی تھی۔ چراگاہ کے اس حصے میں جہاں تیمور کے والد کے مویشی چرائے جاتے تھے‘ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی‘ جہاں تیمور اپنا سامان وغیرہ رکھتا تھا۔ وہاں پہنچ کر تیمور نے اپنی کمان اٹھائی اور ترکش کمر پر باندھ کر گھوڑے کی طرف روانہ ہو گیا۔ اسی اثناء میں یولاش اس کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا ”تیمور! تو میرے ساتھ بے رخی سے کیوں پیش آتا ہے۔ کیا تو جانتا نہیں‘ میں نے اتنے سارے لڑکوں میں سے صرف تجھے دوستی کے لیے منتخب کیا ہے‘ تجھے تو فخر کرنا چاہیے کہ میرے جیسا جاگیر(جاگیردار) کا بیٹا تجھے ۔“۔اچانک تیمور کو اس پر شدید غصہ آ گیا اور اس نے پلک جھپکتے ہی ایک تیر نکالا اور کمان میں رکھ کر یولاش کے سینے کی طرف روانہ کر دیا۔ تیمور کا پھینکا ہوا تیر سیدھا یولاش کے سینے میں اتر گیااور وہ پیٹھ کے بل زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ کچھ دیر تڑپنے کے بعد اس کا جسم ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گیا۔

”یولاش“ وہ پہلا انسان تھا جو تیمور کے ہاتھوں قتل ہوا۔ کچھ دیر لاش کے پاس کھڑا رہنے کے بعد اچانک تیمور کو خیال آیا کہ اس واقعہ کی اطلاع اپنے باپ کو دینی چاہیے۔ تیمور کے والد ”ترقائی“ نے جب یہ سنا کہ اس نے ایک لڑکے کا خون کر دیا ہے تو وہ بے حد پریشان ہو گئے اور کہنے لگے ”بہت بُرا ہوا‘ لڑکے کا باپ ایک نامی گرامی جاگیر ہے اور وہ بہت جلد تمہارے تعاقب میں یہاں آ پہنچے گا“۔

تیمور نے اپنے والد کے سامنے ساری حقیقت بیان کی اور دریافت کیا ”کیا آپ کو یہ گوارا ہوتا کہ ایک ترک لڑکا آپ کے بیٹے پر بُری نظر رکھے اور ناشائستہ باتیں کرے اور آپ کا بیٹا صرف خاموشی سے برداشت کرتا رہے“۔

ترقائی نے سمجھاتے ہوئے کہا ”اگر تو مجھے پہلے بتا دیتا تو میں لڑکے کے باپ سے بات کرتا اور کہتا کہ وہ اپنے بیٹے کو متنبّہ کرے مگر اب سارے دروازے بند ہو چکے ہیں“۔

سب سے پہلے تیمور سے یولاش کے بارے میں اس کے استاد عبداللہ قطب نے تحقیق کی۔ تیمور نے ان کے سامنے ایک کمرہ میں ہونے والی گفتگو کے دوران سب کچھ سچ سچ بتا دیااور وضاحت کی کہ یولاش اس کی طرف بری نظروں سے دیکھتا تھا اور اس کے پاس کوئی راستہ نہ بچا تھا۔ عبداللہ قطب نے پوچھا ”کیا تمہارے سوا کوئی اور بھی یولاش کی ان حرکتوں سے واقف ہے؟“۔ تیمور نے اپنے کچھ ساتھی طالبعلموں کے نام بتا دیے۔ جب عبداللہ قطب نے ان سب کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے تیمور کی باتوں کی تصدیق کر دی۔ تحقیق کے بعد عبداللہ قطب نے اپنا فتویٰ جاری کیا کہ یولاش کے قتل میں تیمور کا کوئی قصور نہیں اور وہ لڑکا چنگیزی قانون ”یاسا“ کی رو سے واجب القتل تھا۔ جب شہر کے داروغہ نے بھی اس بارے میں تفتیش کی تو وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ یولاش ”یاسا“ کے مطابق قتل کا مستحق تھا۔ لہٰذا اس کا باپ نہ تو انتقام لے سکتا ہے اور نہ ہی خون بہا کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ یولاش کے باپ نے بھی مجبوراًبیٹے کے قتل سے چشم پوشی کر لی لیکن وہ جب تک زندہ رہا تیمور کو خصومت بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

پہلی قسط کا لنک

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply