گئے دنوں کی یادیں (8)۔۔مرزا مدثر نواز

عید: نوے کی دہائی میں چونکہ ابھی انٹر نیٹ اور موبائل کا دور دورہ نہیں تھا لہٰذا عید مبارک کہنے کے لیے سوشل میڈیا کی بجائے دوسرے ذرائع کا استعمال کیا جاتا،جن سے آج کی نسل یقیناً  نا آشنا ہو گی۔ عید سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی بک شاپس پر مختلف رنگوں و خوبصورت ڈیزائنوں والے عید کارڈز کی بہار آ جاتی‘ کچھ صرف ایک صفحہ پر مشتمل ہوتے جن کے ایک طرف بالی و لالی و ڈ فلمی ستاروں کی بولڈ یا سادہ تصاویر ہوتیں جبکہ دوسری طرف عید مبارک کی تحریر لکھ کر متعلقہ شخص کو خود یا کسی پیامبر کے ذریعے پہنچایا جاتا‘عید کی مبارکباد دینے کے لیے مشہور و مخصوص اشعار کا ستعمال کیا جاتا‘ ایسے کارڈز عموماً  سکول جانے والے بچے استعمال کرتے۔ دو یا زائد صفحات والے خوبصورت عید کارڈز بڑی عمر کے لوگ خریدتے اور ایک دوسرے کو بھجواتے۔ دوسرے شہر یا ملک بھجوانے کے لیے پاکستان پوسٹ کی خدمات حاصل کی جاتیں‘ ان دنوں یہ محکمہ بھی اپنے عروج کے دن دیکھ رہا تھا اور ڈاکیا یا پوسٹ مین کو معاشرے میں وی آئی پی سٹیٹس حاصل ہوتا‘خوشبو لگے خطوط پر ڈاکیے کی خاص نظر ہوتی اور انہیں ڈیلیور کرنے پر اسے لازماً  بخش  یا بھاری ٹپ کی توقع ہوتی‘ ہر کوئی پوسٹ مین کو سلام کر رہا ہوتا اور پوچھتا کہ فلاں جگہ سے میرا خط یا منی آرڈر تو نہیں آیا۔

عید والے دن بچے خوشی خوشی اٹھ کر تیاری کرتے‘ نئے کپڑے   جوتے پہنتے اور مسجد کو روانہ ہو جاتے‘ نماز سے فارغ ہو کر گھر کے ہر فرد سے عیدی مانگتے‘ کچھ محلے والوں سے بھی عیدی لیتے اور بازار کی طرف نکل جاتے۔ بازار میں اس دن خصوصی سٹال لگائے جاتے‘ کچھ دکاندار تو اسی تیاری میں نماز عید بھی گنوا دیتے‘ خوب گہما گہمی ہوتی اور بچے اپنی پسندیدہ اشیاء خریدتے جن کے خواب وہ کئی دنوں سے دیکھ رہے ہوتے ،جیسا کہ عینکیں‘ کھلونا گاڑیاں‘ کھلونا پسٹل‘ مختلف گیمز‘ گیند اور بَلا وغیرہ وغیرہ کھانے کی اشیاء میں چنا چاٹ‘ برگر‘دہی بھلے‘ بیسن لگے ابلے انڈے‘ ٹھنڈی بوتلیں و جوس‘ آئسکریم‘ قلفی وغیرہ زیادہ پسند کی جاتی  تھیں‘ شوارما اور پیزا ابھی اتنے عام نہیں تھے۔ جو عیدی بچ جاتی اسے سنبھال کر آئندہ دنوں کے استعمال کے لیے رکھ لیا جاتا‘ اگر کسی کے پاس سو روپے تک عیدی اکٹھی ہو جاتی  تو اسے بہت زیادہ تصور کیا جاتا۔ دوپہر کے بعد لڑکیاں گاؤں سے باہر درختوں پر پڑی پینگیں جھولتیں جبکہ لڑکے کرکٹ یا دوسرے کسی کھیل میں مشغول ہو جاتے۔ عصر کے وقت پی ٹی وی پر فلم لگائی جاتی‘ چاند رات کو بھی فلم دکھائی جاتی‘مختلف مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی طرف سے عید مبارک کے پیغامات پی ٹی وی پر سارا دن چلتے۔ عید والے دن اور چاند رات پر بڑے لڑکے پیسے ملا کر میوزک سنٹر سے کرایہ پر وی سی آر اور فلمیں لے آتے اور عید والے دن اکٹھے دیکھتے‘ کچھ سینما کا رخ کرتے جبکہ کچھ قمار بازی کے لیے بھی جھنڈ کی شکل میں بیٹھے دکھائی دیتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کھیل: آج کے دور کو مصروف ترین تصور کیا جاتا ہے اور لوگوں سے آپ اکثر یہ سنیں گے کہ وقت نہیں ہے لیکن اگر آپ ایک دن بغیر انٹر نیٹ کے گزار کے دیکھیں تو شاید یہ محسوس کریں کہ آپ کے پاس کافی فارغ وقت ہے‘ آج کے بچے تو موبائل سکرین سے ہی باہر نہیں نکلتے جبکہ اس کے برعکس نوے کی دہائی میں بچے وقت گزارنے کے لیے مختلف مشاغل اپناتے تھے جیسا کہ سکول اوقات کے بعد یا چھٹی والے دن کھلے میدان میں بھاگتے رہنا‘ پلاسٹک یا ٹینس گیند سے کیچ کیچ کھیلنا‘ تتلیوں یا لیڈی برڈ کو پکڑنا اور شام میں جگنوؤں سے کھیلنا‘ غلیل لے کر پرندوں کے پیچھے بھاگنا‘ ڈربے کے گرد دانے ڈال کر پرندوں کو پکڑنے کی کوشش کرنا‘ گرمیوں کی چھٹیوں میں چھپڑوں و جوہڑوں میں نہانا‘ جامن کے درخت سے جامن اتارنا‘ کسی کے باغ یا گھر سے امرود و انگور چوری چھپے اتارنا‘ کھیتوں سے شلجم‘ گاجر‘ مولی‘ گنے چرانا‘کسی کی مرغیوں کے انڈے چرانا‘ سخت گرمی میں سارا سارا دن کرکٹ کھیلنا‘ سائیکل یا موٹر سائیکل کے پرانے ٹائر کو ہاتھ یا چھڑی سے گلیوں میں چلانا اور اس کے پیچھے بھاگنا‘ لکڑی کی بڑی چھڑی کے ساتھ لکڑی یا پلاسٹک کا ٹائر لگا کر چلانا‘ چھوٹی سائیکل گلیوں میں چلانا اور آپس میں ریس لگانا‘ بڑے سائیکل کو قینچی سٹائل سے چلانا‘ پکانے کی مختلف چیزیں اکٹھی کر کے کسی جگہ چاول پکانا‘ میدانوں سے کھمبیاں تلاش کرنا‘ لوہے کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی کاروں یا پلاسٹک کی دوسری گاڑیوں کو گھر کے جنگلوں پر چلاتے رہنا‘ پتنگ بازی کے سیزن میں کچھ لڑکے سارا دن پتنگ پکڑنے والی بڑی بڑی چھڑیوں کے ساتھ گاؤں کے اردگرد گھومتے رہتے‘ ان چھڑیوں کو چانبا کہتے تھے‘ جدھر ہوا کا رخ ہوتا اور کٹی پتنگ اس سمت میں محو سفر ہوتی تو اس کو پکڑنے کے لیے جم غفیر بھاگ رہا ہوتا‘ پتنگ پڑنے کے اس طریقے میں اکثر پتنگ زخمی ہو جاتی جسے بعد میں آٹے‘ گوند یا چیپی سے جوڑا جاتا‘ اگر کبھی گوند یا چیپی میسر نہ ہوتی تو بہتی ناک بھی گوند کا کام دیتی تھی‘ کچھ لڑکے سارا دن اپنے چھت پر اس انتظار میں رہتے کہ شاید کوئی کٹی پتنگ ان کے چھت پر آ کر گرے یا کٹی پتنگ کی ڈور ان کے ہاتھ لگ جائے‘ کیمیکل ڈور کا اتنا رواج نہیں تھابلکہ دھاگے کو ہی مانجھا لگایا جاتا جس میں اکثر ہاتھ زخمی ہو جاتے‘ کہیں پر اگر ریت یا مٹی پڑی ہوتی تو بچوں نے اس کے اوپر کودنا‘ چھلانگیں لگانا‘ گھر بنانا‘ ایکدوسرے پر ریت یا مٹی پھینکنا وٖغیرہ وغیرہ۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply