گئے دنوں کی یادیں (12)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں (12)۔۔مرزا مدثر نواز/پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز سن انیس سو چونسٹھ میں کیا البتہ ٹیلی ویژن سیٹ عام ہوتے ہوئے کافی وقت لگا۔ اسی و نوے کی دہائی تک محلے میں یہ سیٹ ہر گھر کی زینت نہیں بنا تھا‘ اکثریت کے پاس چودہ انچ کا بلیک اینڈ وائٹ سیٹ تھا جس میں فریکوئنسی تبدیل کرنے کے لیے مکینیکل سوئچ کا سہارا لینا پڑتا۔ ان دنوں مارکیٹ میں زیادہ تر سیٹ لومینر یا الیکٹرا کمپنی کے تھے‘ سونی کے رنگین سیٹ بہت کم لوگوں کے پاس تھے جو کہ اکثر لوگ بیرون ملک سے خرید کر لائے حالانکہ پی ٹی وی نے سن انیس سو چھہتر میں اپنی رنگین نشریات کا آغاز کر دیا تھا۔ مکانوں کی چھتوں پر ہر طرف بانس کی لکڑی یا لوہے کے ایک بڑے سے ٹکڑے پر ٹی وی انٹینا لگے نظر آتے جس کے مختلف حصے پرندوں کے بیٹھنے کی وجہ سے اپنی اصل جگہ سے ہٹ جاتے‘ انٹینا سے سیٹ تک آنے والی کیبل کو کچھ عرصہ بعد تبدیل کرنا پڑتا جو کہ گرمی کی شدت یا دوسرے ماحولیاتی عناصر کی بدولت خراب ہو جاتی۔ اگر ٹی وی سیٹ پر تصویر صاف نظر نہ آ رہی ہوتی تو اس کی وجہ انٹینا کی سمت تبدیل ہونا‘ کیبل کا سیٹ سے انٹینا تک کسی بھی مقام سے ٹوٹ جانا ہوتا۔ پتنگ بھی اکثر انٹینا کی سمت کو تبدیل کرنے کا باعث بنتے۔
محلے کے بچے شام ہوتے ہی کھانا کھا کر ٹی وی سیٹ والے گھر روانہ ہو جاتے جہاں وہ چٹائی پر بیٹھ کر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتے۔ ان دنوں صرف پی ٹی وی یا پھر انڈیا کا دوردرشن چینل ہوتا تھا۔ پی ٹی وی کی نشریات شاید صبح چھ سے رات بارہ بجے تک ہوتیں‘ صبح چھ سے سات بجے تک قرآن مجید کی تلاوت بمعہ ترجمہ کا وقت ہوتا‘ اس کے بعد اکثر عدنان سمیع خان کی گائی حمد’’اے خدا اے خدا‘ جس نے کی جستجو مل گیا اس کو تو“ لگتی اور پھر سکرین پر بچوں کے پسندیدہ میزبان مستنصر حسین تارڑ رونما ہوتے جن کے مخاطب بچے ہی ہوتے‘ پانچ منٹ کی ورزش کے بعد تقریباََ اتنے ہی دورانیے کے کارٹونز دکھائے جاتے جن کا بچوں کو بہت ہی بے چینی سے انتظار ہوتا‘ آٹھ بجے کے قریب ایک مشہور گیت چلایا جاتا۔
کرکٹ سیریز کے دوران میچز بڑے شوق سے دیکھے جاتے‘ انگلینڈ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈو جنوبی افریقہ کی ٹیموں کے ساتھ ان کے ممالک میں جاری ٹیسٹ سیریز کے دوران سکرین پر اچانک نمودار ہونے والا پردہ تو اس دور کے ناظرین کو لازمی یاد ہو گا‘ سہ ملکی سیریز ان دنوں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتیں جیسا کہ شارجہ و سہارا کپ‘ سہارا کپ میچز سردیوں میں صبح صبح اٹھ کر دیکھتے‘ سکول میں تفریح کے دوران قریبی گھر میں جا کر تھوڑی دیر میچ دیکھ آتے‘میرے خیال میں ون ڈے میچز میں زیادہ و تیز رنز بنانے کا سہرا سری لنکا کے آل راؤنڈر کھلاڑی جے سوریا کے سر جاتا ہے جنہوں نے نوے کی دہائی میں ون ڈے کرکٹ میچز میں تیز رنز بنانے کا کلچر متعارف کرایا‘ سر ی لنکا کی ہی ٹیم نے چھیانوے کے ورلڈ کپ میں کینیا کی ٹیم کے خلاف اس وقت کے سب سے زیادہ شاید تین سو چھیانوے رنز بنائے‘ انہی دنوں میچز کی کمنٹری میں میگنیفیسنٹ کا لفظ بار بار سننے کو ملتا لیکن اس کے اردو مطلب سے آشنائی نہیں تھی‘ ٹیچر سے جب اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے سپیلنگ لکھ کر لانے کو کہا۔ چھیانوے کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی سری لنکا کی ٹیم بھی کیا خوب ٹیم تھی جیسا کہ جے سوریا‘ مارون اتا پتو‘ ارونڈہ ڈی سلوہ‘ رانا ٹنگا‘ چمندہ واس‘ مرلی دھرن‘ روشن ماہنامہ وغیرہ وغیرہ۔ کبھی کبھی دوپہر کو پرانے کرکٹ میچز کی جھلکیاں بھی دکھائی جاتیں۔ ویسٹ انڈیز کے ساتھ کھیلا جانے والا ایک روزہ میچ جس میں پاکستانی ٹیم تینتالیس کے کم ترین سکور پر آؤٹ ہو گئی تھی‘ آج بھی ذہن کے کسی کونے میں پڑا ہے۔
دوپہر تین بجے بچوں کے لیے ناظرہ سیکھنے کا پروگرام قاری سید صداقت علی اپنے خوبصورت انداز و آواز میں پیش کرتے۔ ہفتہ کے کسی دن آدھا گھنٹہ کا پروگرام ”آنگن تارے“ پیش کیا جاتا جس میں گلوکارہ حدیقہ کیانی بچوں کے ساتھ مل کر گیت گایا کرتی۔ انہی دنوں بچوں کا سب سے پسندیدہ و شہرہ آفاق ڈرامہ ”عینک والا جن“ شروع ہوا جس نے مقبولیت کی تمام حدیں عبور کر دیں‘ بچوں کو اس ڈرامے کا شدت سے انتظار رہتا‘ عینک والا جن کے مشہور کردار جیسا کہ نستور جن‘ چارلی ماموں‘ حامون جادوگر‘ بل بتوڑی‘ زکوٹا جن‘ کرنانی کافی عرصہ زبان زد عام رہے‘ اسی ڈرامے میں گلوکارہ فریحہ پرویز نے بطور خلائی مخلوق ’عینی‘ کا کردارادا کیا۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply