ترقی کے دس سنہری سال۔۔زبیر بشیر

گزشتہ دس برس کے دوران دنیا بڑی تبدیلیوں سے گزری ہے۔ اس دوران عالمی منظر نامے میں بہت سے واقعات رونما ہوئے جن کے اثرات آنے والے طویل عرصے تک دنیا پر ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ان دس برسوں کے دوران سال 2012 سے 2022 تک عوامی  جمہوریہ چین نے ترقی کی  شاندار منازل طے  کی ہیں۔ چین نے  صرف سڑکوں اور ریل کی مد میں 1.1  ملین  کلومیٹر کا اضافہ کیا۔ اس کی  لمبائی اتنی زیادہ ہے کہ 27 بار خط استوا کا احاطہ کر سکتی ہے۔  اس ایک اشاریے سے آپ چین کی ترقی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

حالیہ دنوں چین کے محکمہ تشہیر  کی جانب سے منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں گزشتہ دس سالوں میں ملک کی ٹرانسپورٹیشن انڈسٹری کو  تاریخی کامیابیوں سے متعارف کروایا گیا۔اعداد و شمار کے مطابق پچھلے دس سالوں میں، چین کے جامع سہ جہتی نقل و حمل کے نیٹ ورک کو مزید فروغ ملا ہے جس نے مؤثر طریقے سے ملکی اور بین الاقوامی اقتصادی گردش کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنایا ہے۔اس دوران چین نے دنیا کا سب سے بڑا ہائی سپیڈ ریلوے نیٹ ورک، ایکسپریس وے نیٹ ورک، اور عالمی معیار کا پورٹ گروپ بنایا ہے۔ ایوی ایشن اور نیویگیشن عالمی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ جامع نقل و حمل کے نیٹ ورک کی مجموعی مائلج 6 ملین کلومیٹر سے تجاوز کر چکی ہے۔ چین کی تیز رفتار ریل، چائنا روڈ، چائنا برج، چائنا پورٹ، اور چائنا ایکسپریس دلکش “چینی بزنس کارڈ” بن چکے ہیں۔ نقل و حمل کا جامع نظام دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور مصنوعات کی تجارت کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر  چین کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔مضبوط ذرائع نقل و حمل ، وقت کی بچت اور آمد ورفت کی مسافت کو کم کرتے ہیں، شہری اور دیہی علاقوں کی ظاہری شکل کو تبدیل کرتے ہیں، رسد اور اقتصادی بہاؤ کو تیز کرتے ہیں، جو نہ صرف ملکی معیشت کی ہموار گردش کی مضبوط حمایت ہے بلکہ عالمی معیشت کی ترقی کی ضمانت بھی ہے۔

ہم حالیہ عرصے میں  دیکھ چکے ہیں کہ وبا کے دوران دنیا بھر کا ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر بری طرح ناکام ہوا اور وبائی صورتحال نے عالمی سطح پر پبلک ٹرانسپورٹ کے تمام ذرائع بشمول ریلوے، ہوا بازی سمیت سیاحت اور دیگر کئی متعلقہ شعبوں کو بھی وسیع پیمانے پر دھچکا پہنچایا ہے۔انہی تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پائیدار ٹرانسپورٹ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تاکہ عالمی سطح پر شعور اجاگر کیا جاسکے اور پائیدار ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بین الاقوامی تعاون کی اپیل کی جا سکے تاکہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ ، سستی ، قابل رسائی ، موثر و لچکدار ،کم کاربن اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ فراہم کی جا سکے۔ کانفرنس کے دوران چین کی اقتصادی سماجی ترقی میں نقل و حمل کے بنیادی ذرائع کی ترقی اور اہمیت سے متعلق بھی آگاہی ملی۔نقل و حمل کے شعبے میں چین کی ترقی کے حوالے سے جاری رپورٹ کے مطابق عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق چین میں ایک جامع ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر نیٹ ورک میں مزید وسعت آتی جا رہی ہے، تکنیکی جدت کے معیار میں بہتری کا رجحان برقرار ہے ۔ چین نے ماحولیات کے تحفظ کو اولین اہمیت دیتے ہوئے شعبہ ٹرانسپورٹ میں سبز اور کم کاربن تبدیلی کو آگے بڑھایا ہے جس سے قابل ذکر نتائج حاصل ہوئے ہیں، عالمی سطح پر ذرائع نقل وحمل کی ترقی کے لیے بین الاقوامی تبادلے اور تعاون کو مزید گہرائی ملی ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لیے اقدامات جاری ہیں ۔

اس وقت  عالمی ترقی کے مروجہ رجحان کی پیروی ضروری ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ  عالمی ٹرانسپورٹ تعاون کو فروغ دیں ، اور تعاون کا ایک نیا باب رقم کریں جس میں انفراسٹرکچر کے رابطے ، تجارت اور سرمایہ کاری کا بلا روک ٹوک بہاؤ ، اور تہذیبوں کے مابین تعاون شامل ہیں۔انہوں نے دنیا پر زور دیا کہ رابطے اور باہمی مفاد کے امید افزا راستے پر قائم رہیں ، مشترکہ طور پر ایک کھلی ، جامع ، شفاف اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کریں جہاں ہر کوئی پائیدار امن ، عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی سے لطف اندوز ہو سکے ، اور بنی نوع انسان کا مشترکہ مستقبل کا حامل معاشرہ تعمیر کیا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پچھلے دس سالوں میں چین دنیا کے مصروف ترین ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق، یومیہ 69,000 سے زائد بحری جہازوں کی بندرگاہوں میں آمد ورفت ہوتی ہے ، 26,800 ہوائی جہاز ٹیک آف اور لینڈنگ کرتے ہیں، اور تقریباً 300 ملین ایکسپریس شپمنٹس کا کاروبار ہوتا ہے ۔ریلوے  مصروف اوقات کے دوران، اوسطاً یومیہ 10,000 سے زیادہ مسافر ٹرینیں اور تیز رفتار ٹرینیں چلاتی ہے۔ ہائی وے پر ٹریفک کا بہاؤ 60 ملین سے تجاوز کر چکا ہے، اور ان علاقوں میں نقل و حمل ایک ایسا شعبہ بن چکا ہے جس نے لوگوں کے لیے وسیع ثمرات لائے ہیں۔

 

Facebook Comments

Zubair Bashir
چوہدری محمد زبیر بشیر(سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان) مصنف ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ان دنوں ڈیپوٹیشن پر بیجنگ میں چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ اسے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی کی اردو سروس سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ چین میں اپنے قیام کے دوران رپورٹنگ کے شعبے میں سن 2019 اور سن 2020 میں دو ایوارڈ جیت چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply