• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان تحریک انصاف کی نکمی حکومت اوریکساں نظامِ تعلیم۔۔۔کاکازئی عامر

پاکستان تحریک انصاف کی نکمی حکومت اوریکساں نظامِ تعلیم۔۔۔کاکازئی عامر

پختون خوا  میں اپنی حکومت کے دوران 2016 میں عمران نے یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ کیا ۔ بادی النّظر میں تو خان کے سب پاسداران یہ سن کرخوشی سے اچھل کود شروع کر دیں گے، مگر ذرا ٹھہریے، پہلے سن تو لیں کہ ہمارے صوبے میں تعلیم کے ساتھ کیا ظلم ہوا تھا ؟

خیبر پختونخوا  کی حکومت نے نجی سکول والوں پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ وہ لازماً پختون خوا  کا متروک کورس، جو بورڈ کا منظور شدہ ہو وہ ہی پڑھائیں گے۔ بجاۓ اس کے کہ یہ اپنے سرکاری  سکولوں کا سلیبس اپ گریڈ کر کے کورسز کو نجی  سکولوں کے برابر لاتے، انہوں نے سیلیبس کو ہی ڈی گریڈ کر دیا۔ یہ فیصلہ بھی عُجلت میں  اس دن کیا ، جب سارے نجی سکولوں کا سیشن تقریباً آدھا ہو چکا تھا ، ایک دم یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا کہ اب بورڈ پانچویں  کلاس اور مڈل کا بھی امتحان لے گا۔ یہ امتحان فروری میں لیا جاۓ گا۔

اب کیا یہ ممکن تھا کہ نجی سکول والے صرف تین مہینے میں پورے سال کا کورس ختم کر دیتے ؟ اور یہ کس طرح ممکن تھاکہ ٹیچر جس نے ابھی یہ کتابیں خود بھی نہیں پڑھیں، وہ یہ کورس اپنے طالب علموں کو تین مہینے میں کروا  دیتے؟ خیبر پختونخوا   کے بورڈ کے سارے مضامین بشمول حساب، اردو میں ہے، اب یہ ایک پرائیویٹ  سکول کے بچے کے بس میں ہی نہیں تھا کہ چار سال یا اس سے زیادہ، حساب اور دوسرے مضامین انگلش میں پڑھیں ہوں اور وہ اچانک جا کر امتحان اردو میں دے دیں ؟(یہ نومبر 2016 کی بات ہے)اس کا ایک سب سے بڑا نقصان  یہ ہوا کہ طالب علموں کا ڈراپ آوٹ بہت زیادہ ہو گیا. ناقص تعلیمی پالیسی کی وجہ سے مستقبل میں نقصان یہ ہو گا کہ جوبچے پانچویں کا امتحان  پاس  نہیں کر سکیں گے  اسے اسکول سے  نکال دیا جاۓ گا یا وہ کلاس ریپیٹ  کریں  گے . اس کا دوسرا  نقصان مستقبل میں یہ ہوگا  کہ ہمارے صوبے کے بچے کسی بھی فیلڈ میں دوسرے صوبے کے بچوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔(اس تعلیمی پالیسی کے پیچھے کیا راز تھا ؟ راز یہ تھا کہ ، کارگاہِ تعلیم سے یہ ایک خبر ملی کہ بورڈ کی کتابیں چھاپنے کے لیے ایک منہ لگے کو دو سال کے لئے مُقرّری ملی آخری دو سال کچھ کمانا بھی تھا کہ نہیں ؟     )

پاکستان ٹوڈے کے دسمبر 23 ,  2017  کے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پختونخوا   کی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے  سکول میں ڈراپ  آؤٹ ریٹ زیادہ ہوا ہے. پختونخوا   میں 2015  سے 2017  تک   150   سکول  لوو  ڈراپ آؤٹ کی وجہ سے بند کیے گیے. جن میں تین لڑکوں کے  مڈل  سکول، 141پرائمر ی سکول اور نو لڑکیوں کے پرائمری اسکول ہیں ۔ہری پور کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر  عمر خان کنڈی کے مطابق پختونخوا   کی تعلیمی پالیسی کی وجہ سو پرائمری  سکول  بند ہونے   ہیں، یونین کونسل بیت گلی کے   ممبر قاری نور حسین کےمطابق پختونخواہ  کی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے سب سے  زیادہ پہاڑی علاقے پر اثر پڑا ہے جہاں والدین بچوں کو اکیلے اتنی دور نہیں بھیج سکتے۔

یکساں نظامِ تعلیم کا مطلب ہے کہ دنیا کا بہترین نظامِ تعلیم اپنائیں،  ہر درجے پر۔ اس کو اپنانے کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی تھا کہ اپنے متروک سلیبس کو نجی  سکولوں کے آکسفورڈ کے جدید سلیبس کے ساتھ اپ گریڈ کیا جاتا۔ اور اگلے تعلیمی  سکول سے نافذ کیا جاتا۔ تعلیمی سال کو انٹرنیشنل سٹینڈرڈ  کے مطابق  سکولوں کو اپ گریڈ کر کے 12th  سٹینڈرڈ   تک لے جایا جاتا۔ مگر جہاں عمران خان ہو اور وہاں کوئی    چل بچل نہ ہو، یہ کس طرح ممکن ہے۔ وہ تو سیدھا کام بھی الٹا لٹک کر کرنے کا عادی ہے۔

خامہ فرسا نے اسی سلسلے میں پشاور کے ایک سرکاری گرلز  سکول کا بھی وزٹ کیا۔ بلڈنگ کی بُری حالت، ٹوٹے پھوٹے فرنچر، پینے کے پانی تک کا انتظام نہیں تھا۔ ایک کلاس روم گیا، جہاں پر ایک ٹیچر ایک چھوٹے سے کمرے میں تقریباً ایک سو بیس بچیوں کو پڑھا رہی تھی۔ اس کمرے میں نہ بجلی تھی نہ کوئی  اور سہولیات۔ سٹاف کی کمی کی وجہ سے وہ ٹیچر پابند تھی کہ ایک سو بیس سٹوڈنٹس  کو تمام سبجیکٹ پڑھاۓ۔ ایک دوسری میں کلاس گیا، جہاں پر ایک ٹیچر اسی بچیوں کو پڑھا رہی تھی۔ ٹیچر کی تنخواہ صرف اٹھارہ ہزار تھی۔ اب  آپ خود فیصلہ کریں کیا کوئی  ٹیچر، اسی سے سو بچوں کو انصاف کے ساتھ پڑھا سکتی ہے؟ڈیرہ میں تین زنانہ اور تین مردانہ کالج تھے۔ ایک زنانہ کالج ایف ای ایف اس حکومت میں ختم کر دیا گیا۔ نواز شریف نے ایگریکلچر فیکلٹی کو یونیورسٹی کا اعلان کیا جو ابھی تک شروع نہیں ہوئی۔ وفاقی حکومت نے ٹانک کیمپس شروع کیا. اس ضلع میں 21 گرلز ہائی سکول اور 53 گرلز مڈل سکول لیٹرین کے بغیر ہیں۔

پانچ میں سے چار سال تک عمران خان  کی حکومت نے اپنے بجٹ کا بمشکل تیس فیصد خرچ کیا ۔ ستر فیصد وفاق کو واپس چلا گیا ۔ کیا وہ پیسہ جو واپس چلا گیا ،  وہ سکولوں کی حالت بہتر بنانے پر خرچ نہیں کرسکتی تھی ؟ یہ پروپیگنڈہ صرف کاغذوں کی حد تک تھا اور ہے  کہ یہ صوبہ سب سے زیادہ تعلیم پر اپنے بجٹ کا حصہ خرچ کرتا تھا. آخری سال ستر ارب ایک بیکار پروجیکٹ پر خرچ  کر ڈالا. ہم قدم کی ایک رپورٹ کے مطابق  پختونخوا    کا نمبر دوسرا ہے جس میں غیر فعال  سکول کی تعداد سب سے زیادہ  ہے یعنی کہ  1663 اسکول   ایسے ہیں  جو کہ  غیر فعال ہیں.

یہاں پر یہ واضح  کر دیں کہ متوسط طبقہ حکومت کے ُبرے،  خستہ حال سکول اور  متروک سلیبس کی وجہ سے نجی سکولوں میں پڑھانے پر مجبور تھا اور ہے۔ ہماری تبدیلی کی حکومت نے ہم سے ہمارے بچوں کا مستقبل بھی چھین لیا. اگر کچھ بہتری نہیں لا سکتے تھے تو کم از کم جو موجود تھا وہ تو ہم سے نہ چھینتے۔ پہلے مذہبی دہشتگردوں نے مذہب کے نام پر خودکش حملے کر کے ہمارے بچے مارے اور اس کے بعد  طا لبان خان نے اپنے دور حکومت کے دوران   پختون خوا  کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کی کوشش کی، ہمارا عمران خان کے لیے یہ مشورہ ہے کہ کسی دوسرے پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے صوبے کو دیکھ لیں آپ نے تو تبدیلی کے نام پر ووٹ لیا مگر جاتے جاتے ہم سے ہمارا  سب کچھ چھین کر لے گئے ، کیا تعلیم کیا صحت کیا ہمارے درخت اورکیا ہمارا انفرا سٹرکچر۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے امیدوار سے یہ ضرور پوچھ لیں کہ ان کی تعلیم کی کیا  پولیسیز ہوں گی؟  وہ عوام کو کتنی آسودگی دیں گے؟ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر ڈالیں۔ جولائی  پچیس  کے دن درست ووٹ کاسٹ کر کے آپ اپنے بچوں کا مستقبل سنوار  سکتے ہیں ۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply