بہترین تدبیر/مرزامدثر نواز

حضرت ابراہیم بن عیلہؒ کو خلیفہ (بادشاہ) ہشام بن عبد الملک اموی نے بلایا اور ان کو مصر کے محکمہ خراج کے افسر کا عہدہ پیش کیا۔ حضرت ابراہیم بن عیلہؒ نے عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ بادشاہ ہشام کو غصہ آ گیا‘ اس نے کہا کہ آپ کو یہ عہدہ قبول کرنا ہو گا ورنہ آپ کو سخت سزا دی جائے گی۔ حضرت ابراہیم بن عیلہ نے نہایت نرمی کے ساتھ کہا‘ اللہ تعٰالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہم نے زمین و آسمان کو امانت پیش کی مگر انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔ پھر جب خدائے بزرگ و بر تر ذمہ داری قبول نہ کرنے پر خفا نہیں ہوئے تو آپ کیوں مجھ پر خفا ہو رہے ہیں؟ بادشاہ ہشام بن عبد الملک یہ سن کر چپ ہو گیا اور اُن کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔ ابراہیم بن عیلہ کے مذکورہ جواب سے پہلے بادشاہ ہشام کو غلطی ابراہیم بن عیلہ کی طرف نظر آ رہی تھی‘ اس جواب کے بعد خلیفہ کو محسوس ہوا کہ غلطی خود اس کی اپنی طرف ہے۔ اس احساس نے اس کی سوچ کو بدل دیا اور اس نے اپنے متشددانہ حکم کو واپس لے لیا۔

یہ ایک عظیم الشان فطری ہتھیار ہے جو اللہ تعٰالیٰ نے ہر آدمی کے لیے اور ہر آدمی کے خلاف مہیا کیا ہے‘ خواہ اس کا حریف بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہو۔ آدمی اگر ردِ عمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو‘ وہ تیز و تند الفاظ بول کر یا مخالفانہ کارروائی کر کے معاملے کو مزید نہ بگاڑے تو یقینی طور پر وہ اِس اِمکان کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب بھی اپنے خلاف کوئی صورتِ حال پیش آئے‘ وہ ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر کارروائی کرے‘ وہ فریقِ ثانی کے اندر احساسِ خطا کو جگانے کی کوشش کرے۔ اگر فریقِ ثانی کے اندر احساسِ خطا بیدار ہو گیا تو گویا وہ خود ہی اپنے ہتھیاروں سے زخمی ہو گیا۔ فریقِ ثانی کے اندر چھپی ہوئی فطرت کو جگانا اس کے اوپر سب سے بڑا حملہ ہے‘ کوئی بھی شخص نہیں جو اس حملہ کی تاب لاسکے۔ تاہم یہ حملہ وہ لوگ کر سکتے ہیں جو اپنے آپ کو ردعمل کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی کرلیں۔ جو لوگ اشتعال کی بات پر مشتعل ہو جائیں وہ کبھی اس اعلیٰ تدبیر کو استعمال نہیں کر سکتے۔ (۱)

ایاز احمد محکمہ موسمیات میں ملازم ہیں‘ انتہائی ملنسار‘ ہمدرد‘ شرافت کا پیکر‘ خوش اخلاق‘ ہر دلعزیز اور دوسری بہت سی صفات کے مالک ہیں۔ دن یا رات کے کسی بھی حصہ میں ان کے موبائل کی گھنٹی بجے‘ تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ جواب نہ دیں جو کہ ایک بہت ہی اچھی عادت ہے۔ موصوف کے ساتھ میری شناسائی تئیس برسوں پر محیط ہے اور اس طویل عرصہ میں‘ میں نے انہیں آج تک غصہ میں نہیں دیکھاچاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ جہاں بھی کچھ عرصہ گزار لیں‘ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں اور ایسی خوبی بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ ایک اور صفت جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی مثبت سوچ اور منفیت سے مکمل احتراز ہے‘ آپ ان سے جو مرضی اور جیسے بھی لہجے میں بات کریں‘ وہ اس کا جواب ایسے اچھے و خوبصورت و مزاحیہ انداز میں دیتے ہیں کہ مخاطب جتنے بھی غصے میں ہو‘ نوے ڈگری سے یکدم زیرو ڈگری پہ آ جاتا ہے اورمسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نفرتوں اور اخلاقی پستی کے اس دور میں ایسے سنہری لوگ بہت ہی محدود تعداد میں پائے جاتے ہیں جو لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بانٹنے کا سبب بنتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس طرح مقناطیس کے ایک جیسے قطب ایک دوسرے کو پرے دھکیلتے ہیں اور مخالف قطب ایکدوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں‘ برقی رو کے بہاؤ کے لیے فیز اور نیوٹرل یا منفی و مثبت سرے ضروری ہیں‘ بالکل اسی طرح منفی بات کا منفی جواب‘ تلخی‘ نفرت‘ غم‘ ناراضگی و دوری و تعلقات کے خاتمہ کا سبب بنتا ہے جبکہ مثبت جواب یا پھر ایک لمحہ کی خاموشی‘ قربت‘ خوشی اور تعلقات کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔ برائی کا جواب کبھی بھی برائی نہیں ہو سکتا اور اسے ہمیشہ اچھائی سے مٹایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ناگوار و ناپسندیدہ و مخالف رائے گفتگو کا اچھے و مثبت انداز میں جواب دینے کی کوشش کریں یا پھر خاموشی بہترین جواب ہے‘ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں تا کہ یہ ضرب کھا کر بڑھتی رہیں۔
(۱) اسباقِ تاریخ از مولانا وحید الدین خان

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply