پنجاب ہائی وے پٹرول پولیس

پنجاب ہائی وے پٹرول پولیس
شہزاد سلیم عباسی
حکومت پنجاب نے 8 جنوری 2003 کو صوبہ بھر میں ہائی ویزشاہراہوں پر سفر کے دوران لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک ماڈل پولیس ’’پنجاب ہائی وے پٹرول(پی ایچ پی) کے قیام کا اعلان کیا ۔ ابتدائی طور پرہائی وے پٹرول کی 450پٹرول چوکیوں کی تعمیرکی منظوری ملی اور بعد ازاں مزید72 ہائی وے پٹرول چوکیاں بنانے کافیصلہ ہوا۔ پنجاب ہائی وے پٹرول (پی ایچ پی) میں اب تک 337 چوکیاں قائم کی جاسکیں ہیں جس میں 9145 کانسٹیبل، 1000 وائرلیس آپریٹرز اور 1000 ڈرائیور کانسٹیبل بھرتی کئے گئے ہیں۔دلکش وردی پہنے پی ایچ پی کے نوجوان 1124ہیلپ لائن کے وہ عظیم سپاہی ہیں جو انصاف و قانون کی بالادستی و سربلندی کے لیے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو بخوبی نبھاتے ہیں۔ پی ایچ پی کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان صرف ہتھیارسے مسلح نہیں بلکہ کریکٹر بلڈنگ، گشت کے اصول، وقوعہ کے تحفظ، ابتدائی طبی امداد، پبلک ڈیلنگ / کمیونٹی پولیس، سیفٹی، صفائی اور ٹریفک مینجمنٹ کے سنہری اصولوں کی سرٹیفیکیشن سے بھی لیس ہیں۔
پنجاب پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کے عہدے کے ایک افسر کی سربراہی میںشاہین صفت پی ایچ پی پولیس بڑی تن دہی اور دلجمعی کیساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بطریقہ احسن انجام دے رہے ہیں۔ مجرموں کو گرفتار کر کے مقامی پولیس کے حوالے کرنا،جائے وقوعہ کو محفوظ رکھنا، شاہرائوں پر کسی جرم کی صورت میں مقامی پولیس کو مطلع کرنا، حادثے کی صورت میں زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا،شدید زخمی کو ہسپتال منتقل کرنا،رپورٹنگ کے مراکز کے طور پر خدمت سرانجام دینااور سڑک پر کسی بھی قسم کی امداد کے لیے ہمہ وقت تیاررہنا،مجاز اتھارٹی کے تعاون سے ہائی وے شاہرائوں کو ہر قسم کے تجاوزات سے پاک رکھنا، باوردی ، تعلیم یافتہ ، ہوشیار اور چوکس فورس کے روپ میں خود کو ہائی وے پر الرٹ رکھنا،صوبے بھر کی 12 شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام بحال رکھنا اور ملک کی مرکزی شاہرائوں پر جرائم کی اندھی داستانوں اور سنگین وارداتوں (جیسے وہیکل تھفٹ، سٹریٹ کرائم،اغواء، ڈکیتی وغیرہ) پر عقابی نگاہ رکھنا انکے اولین فرائض میں شامل ہے۔اگر دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو توجہ ، تحفظ اور پیار۔ہائی پٹرول کا شعار ،کا پرچم تھامے یہ پہلی ماڈل پولیس ہے جو پنجاب میں تعینات کی گئی کہ جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ روایتی پولیس نہیں بلکہ انسانی روپ میں فرشتے ہیں جواخلاق و کمالات سے مرصع ہیںاور آپ کو جرائم سے دور رہنے کی عملی و حقیقی تلقین کر تے ہیں۔ نگاہ بلند ، سخن دلنواز، جاں پرسوز۔ یہی ہے رخت سفرمیرِ کارواں کے لیے
بلاشبہ اسلام آباد پولیس و صوبائی پولیس اوروزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی بنائی گئی سریع الحرکت فورس،ریپڈ ریسپانس فورس،ڈولفن فورس، ایلیٹ فورس ، ٹریفک پولیس، تحقیقاتی برانچ، اسپیشل برانچ، انسداد دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی)، ٹریننگ برانچ، سپیشل پروٹیکشن یونٹ (SPU)، نظم و ضبط اور معائنہ برانچ (D & I)، کمانڈ، کنٹرول اور مواصلاتی مرکز (IC3)، DPR برانچ، موٹر ٹرانسپورٹ ونگ وغیرہ سب کے کاموں کا ایک دائرہ اختیار ہے اور ان تمام اداروں کی کارکردگی مسلّم ہے لیکن جو شہرت اور امتیاز پنجاب پولیس کے شعبہ پی ایچ پی کو حاصل ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ہائی وے پٹرول باقی پولیس فورسز کی طرح صرف جرائم کے خاتمے کیے لیے ہی کام نہیں کرتی بلکہ پرائیویٹ سیکڑ میں سوشلائزیشن میں بھی اسکا بڑا کردار ہے جس کی بدولت اس فورس نے میڈیا ، اداروں اور عوام میں بھی جگہ بنا ئی ہے ۔پی ایچ پی روڈ سے آگاہی ،ڈینگی مکائو اور شجر کاری مہمات میں حصہ لے چکی ہے۔ اسی طرح پی ایچ پی کا ایجوکیشن یونٹ مختلف اداروں میں جا کر پولیس اور عوام کے تعلقات، پولیس کی ذمہ داریوں اور عوامی رویوں اور حقوق بارے آگاہی فراہم کرتی ہے۔ عوامی سروے کرایا جائے تو شاید نظم و ضبط اور فرض شناسی کے حوالے سے رینکنگ میں یہ فورس سب سے ٹاپ پر ہو۔پی ایچ پی کے جوان Round the Clock گشت کرتے ہیں جس سے احساس تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں انسداد جرائم، ٹریفک کنٹرول،عوامی ہیلپ اور ریسکیو کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے ہیں۔ میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں۔ مجھے خوف آتش گل سے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
پیش تحریر کے بعد حقیقی مدعا کی جانب بڑھتے ہیں ۔ایم بی اے، ایل ایل بی،ایم اے اکنامکس، اسلامیات، ایجوکیشن ،انٹرنیشنل ریلیشن اور ریاضی اور سائنس میں بی ایس سی ، ایم ایس اور بی ایس آنرز کرکے پی ایچ پی کو جوائن کرنے والے نوجوانوںکی تلخ داستان زعفران کے پانی سے چاندی کے اوراق پر جلی حروف میں لکھنے کے قابل ہے جو بغیر کسی لالچ اور رشوت کے اپنی جانی ہتھیلی پر رکھ کر ،ماتھے پر شکن لائے بغیر پنجاب بھرکی سڑکوں پر کڑے پہرے لگاگر روڈ کرائم میں نوے فیصد کمی لائے ہیں۔پنجاب ہائی پٹرول ( پی ایچ پی) کے شب وروز گواہ ہیں کہ آج تک اس نے اپنے مالک سے کسی رحم، شفقت یا بے مروتی کا گلہ نہیں کیا بلکہ خندہ پیشانی سے ہر لمحہ ملک دشمن عناصر اور مجرموں کی سرکوبی کے لیے بلا خوف و خطر گھنے جنگلوں اور ویران مقامات پر مظلوم کی آواز پر لبیک کہا ۔پی ایچ پی میں بھرتی ہونے والے جوانوں کو چوہدری پرویز الٰہی حکومت نے تو سہولتیں فراہم کیں ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ان کے لیے نہ کوئی مراعات ہیں، نہ رسک الائونس ، نہ میڈیکل سہولیات اور نہ کوئی دوسری سہولت ، بلکہ حالات اس ڈگر پر پہنچ چکے ہیں کہ چوہدری برادران کی خار میں ان کی تنخواہ بتدریج کم کر کے پولیس محکموں میں سب سے کم رہ گئی ہے جس سے نہ صرف ان سے امتیازی سلوک کا تاثر ملتا ہے بلکہ پورے ہائی وے پٹرول پولیس میں فرسٹریشن اور مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے جس سے آج تک ہزاروں پی ایچ پی کے نوجوان ماڈل فورس چھوڑچکے ہیں۔ پنجاب پولیس کا محکمہ پی ایچ پی کی نفری پوری کرنے کے لیے ضلع سے مستعار نفری منگواتا ہے جو کہ باعث شرم و ندامت پہلوہے۔ چونکہ پی ایچ پی پنجاب پولیس کا ایک معاون ادارہ ہے جس پر پنجاب پولیس کے ادارہ جاتی تمام رولز ریگولیشز کے مطابق محکمانہ سزائوں اور تادیبی کاروائیوں کا تو سو فیصد اطلاق ہوتاہے لیکن پنجاب پولیس کے مراعاتی پیکجز، الائونسزاور پروکیڈرز (محکمانہ ترقیاں برائے افسران ) میں ان شاہین صفت جوانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
ق لیگ کے دور میں عوام کے سکھ اور آرام کے لیے بنائی گئی سرخ اینٹوں کی چوکیاں اور انکے مکین اب زوال کا شکار ہیں۔ چوکیوں پر نفری پوری نہیں۔ گاڑیاں اور چوکیاں بھی کم ہیں۔ اپنے گھر سے کوسوں دور تبادلے کر کے سوشل لائف کو ختم کرنے سے جوانون کا مرال ڈاون ہو رہاہے۔ کانسٹیبل کو ہیڈ کانسٹیبل نہ بننے دینا اور ہیڈ کانسٹیبل کو اے ایس آئی نہ بننے دینا یقینا جوانوںکی پیشہ وارانہ ذمہ دارویوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کررہا ہے ۔پنجاب ہائی پٹرول پولیس کو بند کرنے اور جوانوں کو ڈرانے دھمکانے والی باتیں اخلاقی گراوٹ کا سوا کچھ نہیں ۔ نوکر شاہی،منشی کلچر، پٹوار ی راج، وڈیرہ شاہی ، جاگرداری اور آقا شاہی کے نظام کوانگریز کی عطا کی ہوئی روش پر زندہ و جاوید رکھنا ہے یا عوام الناس کی حفاظت پر معمور پی ایچ پی کے جوانوں کا سر اونچا کرنا ہے ، فیصلہ پنجاب حکومت نے کرنا ہے ۔
حقیقی فلاح اسی میں پنہاں ہے کہ پی ایچ پی کے جوانوںکو تحفظ فراہم کر کے یہ احساس دلایا جائے کہ ان کا محکمہ ختم نہیں ہوگا بلکہ مزید پھلے پھولے گا تاکہ وہ خوب تن دہی سے کام کریں۔ پی ایچ پی کی چوکیوں کی تعداد کو مزید بڑھایا جائے ۔جوانوں کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ کم از کم انہیں میڈیکل کی کچھ سہولیات فراہم کی جائیں ۔پی ایچ پی کے جوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات اور سرٹیفیکیٹس کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا جائے جس سے پی ایچ پی کاجوان پنجاب کا سپاہی ہونے پر گرو محسوس ہواور وہ سراٹھا کر پی ایچ پی کو اپنی ’’مادری آغوش‘‘ کا درجہ دے سکیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply