سمتھ کی فلیش لائٹ/وہارا امباکر

جیزہ کے عظیم ہرم کے درمیان میں “غرقة الملک” (بادشاہ کا کمرہ) ہے۔ اس کمرے میں صرف ایک ہی شے ہے۔ ایک مستطیل صندوق جو کہ اسوان کے سنگِ خارا سے بنا ہے اور ایک کونے سے ٹوٹا ہوا ہے۔ کبھی اس میں خوفو کا جسم ہوا کرتا تھا۔ یہ چار ہزار سال پہلے کے فرعون تھے جنہوں نے اس ہرم کو بنوایا تھا۔ کئی لوگ اس صندوق کے بارے میں دوسرے استعمالات کے بارے میں بھی خیالات پیش کر چکے ہیں۔
سن 1861 کی خزاں کو، اس کمرے میں ایک مہمان آیا۔ ان کے پاس بھی ایک انوکھا خیال تھا۔ یہ چارلس پیازی سمتھ تھے جو سکاٹ لینڈ میں پندرہ سال سے آسٹرونومر تھے۔ اور وہ اس کمرے کی تصویر لینا چاہتے تھے۔
سمتھ نے علم الاعداد اور تاریخ کا ملغوبہ بنا کر پمفلٹ شائع کئے تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ اس عمارت کے معماروں نے پیمائش کے لئے جو یونٹ استعمال کیا تھا، وہ برطانوی انچ کے برابر تھا۔ اور اس “معلومات” کو انہوں نے metric system پر حملہ آور ہونے کے لئے استعمال کیا۔ یہ نظام سرکتے ہوئے برطانیہ میں پہنچنا شروع ہو گیا تھا۔ سمتھ کی لڑائی میٹر سے بھی تھی۔ اور ان کی یہ “دریافت” (جو کہ غلط تھی) کہ مصری انچ برطانوی انچ کے برابر ہے، اس بات کا ثبوت تھا کہ انچ مقدس یونٹ ہے۔ اور اس میں خدا کی مرضی شامل ہے۔
چارلس سمتھ کا خیال تھا کہ اہرامِ مصر سے کئی راز افشا ہو سکتے ہیں اور اس کے لئے انہیں اس کے اندر کھینچی جانے والی اچھی تصویر کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمتھ کی کئی دریافتوں کو وقت نے بے بنیاد ثابت کر دیا اور نہ ہی وہ میٹرک سسٹم کا برطانیہ میں داخلہ روک سکے۔ لیکن “غرقة الملک” میں وہ تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
سمتھ اپنے ساتھ اپنے وقت میں فوٹوگرافی کے نازک اور بھاری آلات لائے تھے۔ اس کی مدد سے wet-plate فوٹوگرافی کی جاتی تھی (جو اپنے وقتوں کی شاہکار ٹیکنالوجی تھی)۔ ان کا مقصد اپنے کام کا دستاویزی ثبوت محفوظ کرنا تھا۔ لیکن انہیں ایک مسئلہ درپیش تھا۔
اس وقت تک indoor فوٹوگرافی کا تصور نہیں تھا۔ کمروں میں کھینچی گئی تصویر سیاہ آتی تھی۔ اگر ٹارچ جلا کر بھی تصویر کھینچی جاتی تو کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ فوٹوگرافر تاریکی میں تصویر کھینچنے کے مسئلے پر 1830 کی دہائی سے کام کر رہے تھے لیکن کچھ حل نہیں ملا تھا۔ (موم بتی اور گیس لائیٹ بے کار تھے)۔
ابتدائی تجربات میں کیلشئم کاربونیٹ کو گرم کر کے روشنی حاصل کی گئی۔ یہ بجلی سے قبل کی بات ہے۔ لیکن ہلکی روشن تصاویر میں سفید چہرے کسی بھوت کے نظر آتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنوعی روشنی کے تجربات میں ناکامی کا مطلب یہ تھا کہ جب سمتھ یہاں پر گئے تو فوٹوگرافی کو شروع ہوئے تو تیس سال گزر چکے تھے لیکن اس کا انحصار سورج کی روشنی پر تھا۔ اور اہرامِ مصر کے اندر یہ بے کار تھی۔
سمتھ نے میگنیشیم کی تار پر ہونے والے حالیہ تجربات کے بارے میں سنا تھا۔ فوٹوگرافر اسے کمان کی شکل میں موڑ لیتے تھے اور کم روشنی میں تصویر کھینچے سے پہلے اسے آگ لگا دیتے تھے۔ اس سے ہونے والی روشنی میں کھینچی گئی تصویر سے نکلنے والے نتائج حوصلہ افزا تھے۔ لیکن اس سے جو دھواں نکلتا تھا، اس کا اثر تصور پر پڑتا تھا۔ باہر کھینچی گئی تصاویر تو پھر بھی ٹھیک آتی تھیں لیکن کمرے کے اندر کی تصاویر دھند میں کھنچی لگتی تھیں۔
سمتھ کو کچھ اور درکار تھا۔ انہیں خیال آیا کہ بہت تیز اور مختصر وقت کے لئے جلنے والی شے درکار تھی۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار میگنیشم کو بارود سے ملایا۔ اس سے ہونے والے چھوٹے دھماکے نے بادشاہ کے اس کمرے کو روشن کر دیا اور اس کی تصویر ان کے فوٹوگرافک پلیٹ پر پہنچ گئی۔
آج اس کمرے میں جب سیاح گزرتے ہیں تو انہیں لکھا ملتا ہے کہ یہاں پر فلیش فوٹوگرافی کرنا منع ہے۔ دلچسپ چیز یہ ہے کہ دنیا میں پہلی فلیش فوٹوگرافی کی تصویر یہیں پر کھینچی گئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کسی بھی چیز کی ایجاد کی طرح فلیش فوٹوگرافی کی شروعات بھی لمبی اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ چھوٹی چیزوں سے ملتے ہوئے بڑے آئیڈیا بنتے ہیں۔ سمتھ اس میں وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے میگنیشم کو بارود دکھا کر روشنی حاصل کر کے تاریک کمرے کی تصاویر لی تھیں۔ لیکن اس کو مقبول ہوتے ہوئے مزید دو دہائیاں لگیں۔
جرمن سائنسدانوں ایڈولف میتھ اور جوہانس گاڈیک نے میگنیشم کے باریک پاؤڈر کو پوٹاشیم کلوریٹ کے ساتھ ملایا۔ اور اس سے مستحکم روشنی پیدا کر کے کم روشن جگہ پر ہائی شٹر سپیڈ کے ساتھ تصاویر لینے کی تکنیک بنائی۔ اس کا نام انہوں نے Blitzlicht رکھا۔ اس کے معنی فلیش لائٹ کے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر چارلس پیازی سمتھ کی جیزہ کے عظیم ہرم کے اندر سے کھینچی ہوئی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply