ڈائمنڈ جوبلی اور شہداء آزادی (1)۔۔مرزا مدثر نواز

تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں حال کی انسانی نسلیں اپنے ماضی کا مشاہدہ کر سکتی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے‘ مثلاََ فخر کے جذبہ کی تسکین حاصل کرنا یا ماضی کی معلومات کے طور پر اس کو دیکھنا لیکن اس کی بجائے تاریخ کا مطالعہ سبق اور نصیحت کے لیے کیا جانا چاہیے۔ برصغیر کی آزادی کی تاریخ درحقیقت قربانیوں کی تاریخ ہے۔ رہنماؤں نے طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ کالے پانیوں کی اذیت ناک تکالیف کو جھیلااور کارکنان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے‘ کبھی توپوں کے آگے باندھا گیا‘ فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو کبھی پھانسی پر لٹکایا گیا۔ رہی سہی کسر تقسیم کے موقع پر بے رحم فسادات نے پوری کر دی جن کے آگے انسانیت بھی شرما گئی۔ یوم آزادی پر تحریک آزادی کے دوران رونما ہونے والے واقعات کو یاد کرنا چاہیے‘ آزادی کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے اور شہداء آزادی کے کارناموں کو سلام کرنا چاہیے نہ کہ تقریبات کو صرف پرچم کشائی تک محدود کیا جائے۔ اس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے جنہوں نے ہمارے پر امن و آزاد آج کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ پاکستانی قوم ان تمام شہداء کی احسان مند ہے۔ یوں تو تحریک آزادی ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن شہداء آزادی کو یاد کرنے و انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چند ایک واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔

16 اگست 1946 کو مسلم لیگ نے ”ڈائریکٹ ایکشن ڈے“ منانے کا اعلان کیا‘ ساتھ ہی تمام مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ برٹش گورنمنٹ کے دیے ہوئے خطابات واپس کر دیں۔ 16 اگست کو ”ڈائریکٹ ایکشن ڈے“ ہر جگہ امن و امان سے گزر گیا‘ لیکن کلکتہ میں بڑا زبردست فساد ہو گیا۔ مسٹر حسین شہید سہروردی بنگال کے چیف منسٹر تھے۔ انہوں نے 16 اگست کو عام تعطیل کا دن قرار دے دیا۔ کانگرسی حلقے اس اعلان پر بڑے سیخ پا ہوئے۔ کلکتہ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد چوبیس فیصد کے قریب تھی۔ 16 اگست کو وہ لاکھوں کی تعداد میں ”ڈائریکٹ ایکشن ڈے“ کے جلسے میں شریک ہوئے۔ مسٹر سہروردی نے بڑی ولولہ انگیز تقریر کی۔ جلسے کے بعد جب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے تو شہر کے گلی کوچوں میں مسلح ہندوؤں نے اچانک ان پر قاتلانہ حملے شروع کر دیے۔ جلسہ گاہ سے واپس آنے والے مسلمانوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ اس طرح یکایک ایک پہلے سے ٹھانی ہوئی سازش کا شکار ہو جائیں گے۔ وہ بالکل نہتے تھے۔ اس کے برعکس ہندوؤں کے جتھے ہر قسم کے مہلک ہتھیاروں سے لیس تھے۔ وہ جگہ جگہ گھات لگا کر بے خبر اور بے شان و گمان مسلمانوں کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ تاریخ یہ کبھی نہ بتا سکے گی کہ اس روز کلکتہ کے گلی کوچوں‘ سڑکوں‘ اور بازاروں میں کتنے مسلمان شہید ہوئے۔ ان کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تھی۔ یہ قیامت صغریٰ کئی روز تک شہر کے طول و عرض میں برپا رہی۔ کلکتہ کے ہندو پہلے سے تیار بھی تھے‘ مسلح بھی تھے اور تعداد میں بھی مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھے۔ لیکن ہندو پریس یہی ادھم مچاتا رہا کہ زیادتی سراسر مسلمانوں کی ہے اور صوبے کے چیف منسٹر سہروردی ان کی خفیہ طور پر مدد کر رہے ہیں۔

ہندوستان کے شہروں میں ہندو مسلم فساد کوئی نئی یا عجیب چیز نہیں تھی لیکن جس پیمانے پر کلکتہ میں کشت و خون کا بازار گرم ہوااس نے سب کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا۔ یہ دو فرقوں یا دو گروہوں کی لڑائی نہ تھی بلکہ دراصل یہ دو قوموں کی جنگ تھی۔ برصغیر میں پہلی بار دو قومی نظریہ بساطِ سیاست سے نکل کر میدان کارزار میں اتر آیا تھااور کلکتہ کے اس عظیم قتل عام نے مستقبل کے نقشے پر بڑے گہرے اور دور رس اثرات مرتب کئے۔(شہاب نامہ)

Advertisements
julia rana solicitors london

کانگرس 2ستمبر 1946 کو عبوری حکومت میں آئی تھی۔ 15 اکتوبر کو مسلم لیگ بھی اس میں شامل ہو گئی۔ عبوری حکومت 14اراکین پر مشتمل تھی۔ 6 کانگرسی‘ 5 مسلم لیگی‘ 1 سکھ‘ 1 عیسائی اور 1 پارسی۔ مسلم لیگ کی شمولیت کانگرس کی مرضی کے خلاف عمل میں آئی تھی۔ اس لئے کابینہ میں ان دونوں کی رفاقت شروع ہی سے معاندانہ اور مخاصمانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایک طرف تو حکومت کے اندر مسلم لیگ اور کانگرس کی کشا کشی روز بروز زور پکڑتی جا رہی تھی‘ دوسری طرف برصغیر کے کئی حصوں میں ہندو مسلم فسادات با ضابطہ خون کی ہولی کھیل رہے تھے۔ کلکتہ میں مسلمانوں کے قتل عظیم کے بعد مشرقی بنگال کے ضلع نواکھلی میں فساد ہو گیا‘ جہاں 300کے قریب افراد مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ اس واقعہ کو ہندو پریس نے مبالغے کا رنگ چڑھا کر ایسے انداز سے پیش کیا کہ ملک کے طول و عرض میں شدید بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ ہندو تو پہلے ہی بپھرے بیٹھے تھے۔ اب نواکھلی کو بہانہ بنا کر انہوں نے بہار میں جوابی کارروائی شروع کر دی۔ یہاں پر مسلمان اقلیت پر جو قیامت ٹوٹی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ صوبے میں کانگرسی وزارت برسر اقتدار تھی۔ سرکاری اعدادو شمار کیمطابق یہاں 8ہزار سے اوپر مسلمان شہید ہوئے لیکن اصلی تعداد کا کسی کو پورا علم نہیں۔ جن علاقوں میں یہ خونی طوفان اٹھا وہاں پر مسلمانوں کی آبادی سات آٹھ فیصد سے بھی کم تھی۔ ہندوؤں کے مسلح جتھے ہاتھیوں‘ گھوڑوں اور بیل گاڑیوں پر سوار ہو کر نکلتے تھے اور گاؤں گاؤں جا کر مسلمان آبادیوں کو نیست و نابود کر دیتے تھے۔ پیدل بلوائیوں کے جھنڈ کے جھنڈ ٹڈی دَل کی طرح پھیلے ہوئے تھے اور مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر‘ چن چن کر برچھیوں اور بھالوں سے مار ڈالتے تھے یا گھروں میں بند کر کے زندہ جلا دیتے تھے۔ درجنوں مسجدیں کھود کر ہل چلا دیا گیا۔ سینکڑوں عورتوں نے اپنی عصمت بچانے کی خاطر کنوؤں میں کود کر جان دے دی۔ بہت سے بچوں کو درختوں کے تنوں کے ساتھ میخوں سے ٹھونک کر مصلوب کر دیا گیا۔ ایک بھاری اکثریت کے ہاتھوں ایک قلیل‘ بے ضرر اور بے یارو مددگار اقلیت پر ظلم و بربریت کی اس سے زیادہ گھناؤنی مثال ملنا محال ہے۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply