ڈپٹی نذیر احمد/مرزا مدثر نواز

دنیا کے اے مسافر‘ منزل تیری قبر ہے‘ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار کر سکا نہ کر سکتا ہے۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے‘ معلوم نہیں کہ کتنے اربوں‘ کھربوں کی تعداد میں انسان اس سیّارے پر تشریف لائے جبکہ ان میں بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے ناموں اور کارناموں سے موجودہ دور کے انسان واقف ہیں‘ ایسے لوگ ہر آنے والے دور میں زندہ رہتے ہیں۔ اس دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے کہ آج مرے اور کل دوسرا دن ،کے مصداق ذہنوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن اقلیت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنی با مقصد زندگی و عظیم کارناموں کی بدولت آئندہ آنے والے انسانوں کو بھلائے نہیں بھولتے۔
؎ بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے(جون ایلیا)

جو لوگ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں‘ انہی میں ایک طبقہ ایسا ہے جن کی پہچان ان کی تصنیفات ہیں جن سے بنی نوع انسان ان کے مرنے کے ہزاروں سال بعد بھی مستفید ہو رہے ہیں کیونکہ مقصد سے بھرپور  کتابیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ اگر کوئی تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہے تو کوئی ایسا کام کرے جو لکھا جا سکے یا پھر ایسا لکھے جو یاد رکھا جا سکے۔ اردو زبان کے لکھاریوں میں ایک نام ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا بھی ہے جنہیں چند علما  اور محققین کے کچھ تحفظات کے باوجود اکثر تذکرہ نگاروں کی رائے میں اُردو کا پہلا ناول نگار کہا جا سکتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد نے مقصدی‘ اصلاحی‘ اخلاقی اور تعلیم و تربیتی والے کئی ناول لکھے مثلاََ مرأۃ العروس‘ بنات النعش‘ توبتہ النصوع‘ فسانہ مبتلا‘ ایاصیٰ‘ رویائے صادقہ اور ابن الوقت۔ سبھی ناولوں نے عام شہرت پائی اور جب تک اردو کاایک بھی قاری موجود ہے‘ یہ سبھی کاوشیں اپنے حصے کی ناگزیر داد وصول کرتی رہیں گی۔ ان کا طرزِ تحریر اس قدر دل پذیر اور دلکش ہے کہ قاری اوّل تا آخر کہیں بھی اکتاتا نہیں اور اس کے دل میں یہ خواہش جنم لینے لگتی ہے کہ وہ اس شاندار اخلاقی اور تعلیمی و تربیتی ناول کو ایک ہی نشست میں تمام کر ڈالے۔ یہ خوبی بہت کم ناول نگاروں کے حصّہ میں آتی ہے۔ آج کوئی بھی بک شاپ و کتاب میلہ نذیر احمد کے ناولوں کے بغیر نا مکمل نظر آتا ہے۔

نذیر احمد نے لڑکپن اور جوانی کی زندگی مشکلات و مصائب سے لڑتے ہوئے گزاری۔ ان کی زندگی میں حالات کی تلخی‘ ہمت کی عظمت اور کامیابی کی کرنیں جابجا جھلکتی ہیں اور ہمیں کسی بھی حال میں ہمت نہ ہارنے کا سبق دیتی ہیں۔ وہ ۶ دسمبر 1836ء کو پیدا ہوئے‘ ابتدائی تعلیم و تربیت تو اپنے والد محترم ہی سے حاصل کی مگر بعد میں مدرسے میں داخل کروا دیئے گئے۔ مکتب میں جی نہ لگا تو باپ نے اپنے ایک رفیق اور عالم کے حوالے کر دیااور پھر مزید تعلیم کے لیے دہلی بھیج دیئے گئے۔ دہلی میں عربی کا ایک مدرسہ مولوی عبد الخالق کی نگرانی میں قائم تھا۔ یہاں آ کر جو تلخیاں نذیر احمد کے حصہ میں آئیں‘ وہ ساری عمر‘ ان کی یادداشت سے محو نہ ہو سکیں‘ یہاں تک کہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گداگری تک کرنا پڑی۔ استاد مولوی عبد الخالق گھریلو کام کے لیے حسبِ دستور شاگردوں سے بیگار لیتے تھے اور ان کا تازہ مشقتی نووارد طالب علم نذیر احمد تھا‘ مولوی کی پوتی نے یہ مشقت اوربھی کٹھن کر دی کیونکہ بقول نذیر احمد ”جب تک سیر دو سیر مصالحہ مجھ سے نہ پسوا لیتی‘ گھر سے نکلنے دیتی نہ روٹی کا ٹکڑا دیتی“ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی شرارت مآب اور جابر لڑکی بعد میں نذیر کی دلہن بنی۔

انسان میں لگن ہو تو مصیبت کا کٹھن دور خود بخود کٹ جاتا ہے۔ نذیر احمد کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اتفاقاً دہلی کالج کا دروازہ ان کے لیے کھلا اور گویا قسمت ہی پلٹ گئی۔ دہلی کالج میں نذیر احمد کی تعلیم 1848ء میں شروع ہو کر 1854ء میں تکمیل کو پہنچی‘ اس کالج نے انہیں سب کچھ دیا‘ خود ڈپٹی صاحب کا کہنا ہے کہ ”اگر میں کالج میں نہ پڑھا ہوتا تو میں کیا بتاؤں کہ کیا ہوتا‘ تنگ نظر‘ متعصب‘ مسلمانوں کا نادان دوست‘ تقاضائے وقت کی طرف سے اندھا اور بہرا۔۔۔“

انیسویں اور بیسویں صدی کے جن ادیبوں نے عورت کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم‘ گھرداری کے سلیقے‘ نشست و برخواست و میل جول کے آداب اور جدید علوم سے دلچسپی کو ضروری قرار دیا‘ وہ اپنے عہد میں اقلیت میں ہونے کے باوجود عظیم‘ دور اندیش اور اکثریت کے لیے راہِ راست سے بھٹکے ہوئے تھے لیکن برصغیر پاک و ہند کی عورت کی حالت میں جتنی بھی مثبت تبدیلی آئی‘ اس میں ان بھٹکے ہوئے لوگوں کا نمایاں حصہ ہے جن میں سرِ فہرست ڈپٹی نذیر احمد ہیں جنہوں نے توبتہ النصوع‘ فسانہ مبتلا‘ بنات النعش اور مرأۃ العروس جیسے بلند پایہ ناول تخلیق کر کے نہ صرف اردو ادب کا دامن وسیع کیا بلکہ عورت کو بھی قدیم جاہلانہ رسوم و قیّود کی زنجیروں سے آزاد کرنے کی بھر پور سعی کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نذیر احمد کو 1897ء میں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا گیا۔ 28 دسمبر 1910ء کو اردو ادب کے یہ عظیم معمار زمین کی گود میں ہمیشہ کے لیے سما گئے۔ اس فانی دنیا سے عالم جاودانی میں کوچ کر جانے کے باوجود ان کا نام نہ صرف اردو ادب‘ ناول نگاری اور اصلاح پسندی کی تاریخ میں جگمگا رہا ہے بلکہ اردو ادب کے چاہنے والوں کے دلوں میں بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
؎کتنی دلکش ہو تم‘ کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے(جون ایلیا)
ماخَذ: ابتدائیہ‘ بنات النعش

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply