• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسلامی تعلیم و تربیت کا فلسفہ اور اصول(1)-نذر حافی

اسلامی تعلیم و تربیت کا فلسفہ اور اصول(1)-نذر حافی

اسلامی نکتہ نظر سے تعلیم اور تربیت ایک ساتھ ہونی چاہیئے۔ نظامِ تعلیم و تربیت میں تربیت سے مراد فقط اخلاقی تربیت نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اسلامی تعلیم سے مراد فقط اخلاقی تعلیم نہیں۔ اخلاقی تعلیم و تربیت تو اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک شعبہ ہے۔ پس اسلامی تعلیم و تربیت دراصل ایک ایسے وسیع نظامِ تعلیم و تربیت کا نام ہے، جس کے ان گنت شعبہ جات ہیں۔ ہمارے ہاں اسلام کے نام پر اخلاقی تعلیم و تربیت پر تو کسی حد تک توجہ دی جاتی ہے، لیکن بطورِ نظامِ تعلیم و تربیت ہم نے اسلام کو نہیں سمجھا۔ اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کو اپنانے سے ہماری صرف اخلاقی مشکلات حل نہیں ہونگی بلکہ ساری اقتصادی، سفارتی، تعلیمی، عسکری، اجتماعی، سیاسی، قانونی اور تجارتی مشکلات کا حل بھی اسی نظامِ تعلیم و تربیت میں ہی موجود ہے۔

اسلامی تعلیمی نظریات کے مطابق انسان کے اندر تعلیم و تربیت کی ظرفیت فطری طور پر موجود ہے، لیکن یہ فطری ظرفیت اپنے نکھار کیلئے انسان سے محنت، زحمت اور مشقت مانگتی ہے۔ اس کیلئے مربّی اور متربی یا استاد اور شاگرد کے درمیان مختلف ادوار، مراحل اور قواعد کا ایک مربوط نظام موجود ہے، جسے اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کہتے ہیں۔ اسلامی نظامِ تعلیم و تربیّت کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس سے مختلف رنگوں، نسلوں، مذاہب، علاقوں، خاندانوں اور مختلف عمر کے لوگ یکساں طور پر مستفید ہوسکتے ہیں۔ دیگر تعلیمی مکاتب کے مفکرین نے اپنے اپنے فلسفے اور نظریات کی بنیاد پر تعلیم و تربیت کے مختلف نظاموں کو تشکیل دیا ہے، لیکن اسلامی نظام تعلیم و تربیت کے ماہرین نے خود سے کوئی نظام تشکیل نہیں دیا بلکہ دینِ اسلام جو کہ ایک فطری اور انسان ساز دین ہے، اسی میں موجود انسان سازی کے فلسفے کی بنیاد پر اسی دین کے بنیادی ماخذ قرآن و سنت سے ہی “نظامِ تعلیم و تربیت” کو اخذ کیا ہے۔ اسلامی تعلیم و تربیت کا نظام یعنی مبانی، اصول، روش، مراحل، تدریج، ظرفیت۔۔۔۔ سب کچھ قرآن و سنّت سے استخراج شدہ ہے۔

اسلامی تعلیم و تربیت کی رو سے انسان اپنے خالق کا ایک منفرد شہکار ہے، اسے اپنی تخلیق کے بعد ایک خاص ہدف تک پہنچنا ہے، جو اپنے ہدف تک پہنچے گا، وہی انسان کامیاب کہلائے گا۔ انسان کو اس کی خلقت کے مقصد تک پہنچانے کیلئے، اللہ تعالیٰ نے کتابوں، معجزات اور روشن دلیلوں کے ساتھ ساتھ انبیائے کرام کو مبعوث کرنے کے علاوہ انسان کو عقل، ارادے، اختیار اور علم جیسے وسائل بھی عطا کئے ہیں۔ خدا نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جہلا کی تعلیم و تربیت کو علماء پر لازم قرار دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے ہر سکول اور مدرسہ نیز نظامِ تعلیم و تربیت قابلِ اطمینان نہیں۔ تعلیم و تربیت دینی ہو یا دنیاوی، اس وقت مطلوبہ اور قابل اطمینان ہوگی، جب وہ اسلام کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوگی۔ بلاشبہ اتنی بڑی عمارت کی تعمیر سے پہلے ایک جامع منصوبے، مطلوبہ وسائل کے تخمینے اور درست نقشے کی ضرورت ہے۔

انسان کو ایک مطلوبہ اور جامع تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا ہی دینِ اسلام کا مقصد ہے۔ دینِ اسلام فقط انسان کی داڑھی لمبی کرنے، اس کے سر پر ٹوپی یا عمامہ رکھوانے اور اُسے لمبا کُرتا یا چوغہ پہنوانے نہیں آیا، بلکہ اسلام تو اس لئے آیا ہے کہ انسان اس دنیا میں سعادت اور خوشبختی کی زندگی بسر کرے۔ دین یہ چاہتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اس دنیا میں کم سے کم دکھ اٹھائے اور زیادہ سے زیادہ خوشحالی، دنیا کی نعمتوں، لذتوں اور لطف سے بہرہ مند ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کیلئے انسان کو ایک خاص، جامع اور انتہائی مفید تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ آج تعلیم و تربیت کے میدان میں اسلام کے علاوہ دیگر ادیان و مکاتب کا سرگرم ہونا کسی سے مخفی نہیں، بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دیگر مکاتب خصوصاً مغربی مکاتب اپنے اپنے نظریئے کے مطابق لوگوں کی معیاری تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنے میں مسلمانوں سے بہت آگے ہیں۔

اُن کے اِس آگے ہونے اور مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی خاص وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی تعلیم و تربیت کا مطلب صرف آیات و روایات کو حفظ کرنا، ان سے تقاریر کرنا، اخلاقی مباحث پر وعظ و نصیحت کرنا اور زیادہ سے زیادہ فقہی احکام کا استخراج کرنا سمجھ لیا ہے۔ آج سارے جہانِ اسلام میں مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک اسلامی تعلیم و تربیت یہی کچھ ہے اور اسلامی دینی مدارس میں بھی انہی چیزوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ موجودہ صدی میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کی اہمیت بھی نمایاں ہوگئی۔ اس انقلاب نے مسلمانوں کے درمیان تعلیم و تربیت کے متعلق قدیمی رائج نظریات پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ ایران میں اسلامی حکومت قائم ہونے سے عوام کی تعلیم و تربیت بھی انقلابی حکومت کی ذمہ داری قرار پائی۔ اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنا خود اسلامی انقلاب سے انحراف کے مترادف تھا۔

چنانچہ اسلامی انقلاب کے بانیوں نے اپنے ملک کے باسیوں کیلئے اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کو تشکیل دینے کی خاطر ایک عظیم قومی و علمی تحریک کا آغاز کیا۔ اس علمی تحریک کی بدولت مربّی و متربی کی تربیت، نئی نصابی کتابوں کی تخلیق، دیہی اور پسماندہ علاقوں میں اساتذہ کی تربیت کے مراکز، طلباء اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کیلئے تمغوں، اسکالرشپ، گرانقدر انعامات اور جوانوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی مقبولیت کے لئے کئی چھوٹے بڑے منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ یہ علمی تحریک خود ایک بہت بڑا انقلاب تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1969ء میں ایران میں شرحِ خواندگی 41.7 فی صد تھی جبکہ اسلامی انقلاب کے بعد 1989ء میں یہ شرح 62 فی صد ہوگئی اور 2019ء میں یہ شرح 85 فی صد تک پہنچ چکی تھی۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد چار مرحلوں میں نظامِ تعلیم و تربیت کو تشکیل دیا گیا۔ پہلے مرحلے میں ایک علمی تحریک شروع کی گئی، جس کا بنیادی مقصد استاد، کتاب، سکول، طالب علم، ماحول، تعلیمی وظیفہ، تنخواہ اور ڈیوٹی الغرض سب کچھ توحید محور کیا گیا۔ بانی انقلاب نے جو لاشرقیہ ولا غربیہ کا راستہ منتخب کیا تھا، درحقیقت اُس راستے کا نقشہ یہی نظامِ تعلیم و تربیت تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے پہلے وزیر تعلیم ڈاکٹر غلام حسين شكوهي حقیقی معنوں میں ایک دانشور اور ماہرِ تعلیم تھے، تاہم ملک کی جاری سیاسی فضا میں وہ تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے عہد میں تقریباً تیس ہزار جوانوں کو اسلامی تعلیم و تربیت کی ٹریننگ دی گئی۔ اس کے بعد عراق و ایران کی جنگ شروع ہوئی تو تعلیم و تربیت کا میدان سکول و کالج سے ملکی سرحدوں اور فوجی مورچوں تک پھیل گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بعد ازاں محمد علی رجائی شہید بھی وزیرِ تعلیم بنے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ ایک توحید پرست معاشرے کے لیے مناسب و موزوں تعلیمی نظام کی تشکیل پر مرکوز رکھی۔ پھر محمد جواد باهنر، علي اكبر پرورش اور سيد كاظم اكرمي نے باری باری وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھالا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب جوانوں کی تعلیم و تربیت سکولوں کے بجائے محاذ جنگ اور فوجی مورچوں میں ہو رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے شہداء میں ایک بڑی تعداد سکولوں و کالجز کے اساتذہ اور طالب علموں کی ہے۔ یوں سمجھئے کہ ملکی دفاع کی ذمہ داری فوج کے بعد وزارتِ تعلیم پر تھی۔ ایران و عراق کی جنگ کے خاتمے اور حضرت امام خمینی ؒ کی وفات نے تعلیم و تربیت کے شعبے کو از سرِ نو ہلا کر رکھ دیا۔ اس دوران محمد علی نجفی کو آٹھ سال وزیرِ تعلیم رہنے کا موقع ملا۔ اس دور میں سب سے اہم کام ثانوی تعلیمی نظام کو تبدیل کرنا اور ہائی اسکولوں میں ٹرم سسٹم بنانا تھا۔ یہ سب مسٹر خاتمی کے زمانے تک چلتا رہا۔ مسٹر خاتمی کے دور میں سیاسی دھڑے بندی ایران کے نظامِ تعلیم پر اثر انداز ہوئی اور اس زمانے کے وزیر تعلیم مظفر حسین نے استادوں اور طلباء کی سیاسی انجمنیں بھی قائم کیں۔ صدر خاتمی کے دوسرے دور میں مرتضي حاجي کو یہ ذمہ داری دی گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply