• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مستونگ سے ہنگو، لہو لہو وطن اور ہفتہ وحدت/ڈاکٹر ندیم عباس

مستونگ سے ہنگو، لہو لہو وطن اور ہفتہ وحدت/ڈاکٹر ندیم عباس

ربیع الاول کی آمد اس بات کا اعلان ہوتی ہے کہ ایام غم جا رہے ہیں اور خوشیاں آ رہی ہیں۔ محرم میں نواسہ پیغمبرﷺ کی شہادت سے شروع ہونے والی مجالس کا سلسلہ اب ختم ہو جائے گا۔ اب رسالت مآبﷺ اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادقؑ کی ولادت باسعادت کے جشن ہوں گے۔ مساجد و امام بارگاہیں، گلیاں و بازار میلاد مصطفیٰﷺ منانے کے لیے سج جاتے ہیں۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے دشمن اس میں کامیاب ہوگیا کہ اس نے بڑے پیمانے پر محرم الحرم میں بدامنی پیدا کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب محرم امام حسینؑ کے پیغام حریت کی بجائے امن و امان کے قیام کا مہینہ بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ربیع الاول ابھی تک جشن و میلاد کا مہینہ رہا ہے۔ ربیع الاول میں جلوس نکالنے یا میلاد منانے کے لیے کسی قسم کے پرمٹ یا اجازت نامے کی ضرورت نہیں رہی۔ فرقہ پرست تقریر و تحریر میں مخالفت کرتے ہیں، مگر عملی طور پر انہیں میلاد النبیﷺ کے جلوسوں کو روکنے یا اس کے راستے میں روڑے اٹکانے کی جرات نہیں ہوئی ہے۔ سکول، کالج، یونیورسٹیاں اور مدارس سمیت تمام تعلیمی ادارے بڑے زور و شور سے جشن میلاد مناتے ہیں۔ اہل پاکستان کا میلاد نبیﷺ منانے کا انداز بہت ہی دلنشین اور عقیدت سے بھرپور ہے۔

صدیوں سے جاری اس روایت میں وقت کے ساتھ تنوع آتا رہا ہے۔ وطن عزیز میں افغانستان سے آنے والی دہشتگردی کی لہر جاری ہے۔ بین الاقوامی استعمار پاکستان کو اپنی شکست کا ذمہ دار سمجھ کر اس کو سزا دینے کے درپے ہے۔ہم چند دن پہلے تفتان بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوئے تو ارادہ تھا کہ بذریعہ کار کوئٹہ آجائیں اور کانوائے کی صعوبتوں اور انتظار سے بچ جائیں، مگر ہمارے ایف سی اور لیویز میں موجود احباب نے بڑی سختی سے منع کر دیا اور کسی بھی صورت میں کانوائے سے الگ آنے کی اجازت نہیں دی۔ ان سب کا اصرار تھا کہ حالات خراب ہیں اور کچھ ہونے والا ہے، میں نے ان کی بات مان لی اور کانوائے سے ہی کوئٹہ آیا اور ابھی گھر آئے دوسرا دن ہے کہ مستونگ میں عاشقان رسالتﷺ کی عید میلادالنبیﷺ کی ریلی کو نشانہ بنایا گیا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق پچاس سے زیادہ نہتے مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔مستونگ کے ساتھ ہی ہنگو میں ایک تھانے میں ہونے والے حملے میں بھی بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔

میں سوچ رہا ہوں یہ کیسے مسلمان ہیں؟ یہ کس طرح کی سوچ و فکر رکھتے ہیں؟ یہ عام شہروں میں چلتے پھرتے نہتے سادہ لوح مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں۔ وہ عام مسلمان جو اپنے نبیﷺ کا نام آتے ہیں آنکھیں بند کرکے ہاتھ منہ کو لگا کر آنکھوں کو لگاتے ہیں اور درود بلند کر دیتے ہیں۔ انہیں دنیا کی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے ہیں، نعتیں پڑھتے ہیں اور اچھے کپڑے پہن کر دنیا والوں کو بتاتے ہیں کہ آج اللہ نے ہم پر کرم فرمایا ہے اور آج کے دن ہمارے نبیﷺ دنیا میں تشریف لائے، جن کے آنے سے جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے، کفر و شرک کی گمراہیاں نور ہدایت محمدی سے قصہ پارینہ بن گئیں۔ پیغام محمدیﷺ دنیا میں آیا اور چھا گیا۔ ہم آج اس پیغام اور صاحب پیغام سے عقیدت کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔ ان پر آگ و بارود سے حملہ کرکے اللہ اور اس کے نبیﷺ کو تکلیف پہنچائی گئی ہے۔

عراق اور شام سے بڑی تعداد میں داعشی افغانستان منتقل کیے گئے ہیں۔ ہم اس وقت بھی چیخ رہے تھے کہ یہ بین الاقوامی گیم تبدیل ہونے جا رہی ہے اور اگلا شکار ہم ہوں گے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے بارہا اس پر بات کی، اشرف غنی نے اس پر واویلا کیا، مگر سب بے سود رہا۔ داعشی فکر جہاں جاتی ہے، خوارج کی یاد تازہ کرتی ہے۔ خوارج کی تلوار کبھی اسلام دشمنوں کے خلاف کام نہیں آئی، اس سے طول تاریخ میں مسلمانوں کی گردنیں ہی کٹی ہیں۔ اب بھی وہی ہو رہا ہے، اب بھی وقت کے خوارج نہتے اور عام مسلمانوں کی گردنوں کے درپے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے نبیﷺ سے خاص بغض رکھتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک مدینہ کا روضہ رسولﷺ کی زیارت کے قصد سے سفر کرنا حرام ہے۔عجیب لوگ ہیں، ان کے دلوں سے ان کے اعمال کے سبب اللہ نے اپنے نبیﷺ کی محبت ہی نکال لی ہے۔ جو روضہ نبیﷺ پر جانے کو حرام سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک عید میلاد النبیﷺ کی ریلیاں تو کفر، شرک اور بدعت سے کم کچھ نہیں ہیں، اس لیے ان کا روکنا تو بہت ضروری ہے۔ عقل و شعور سے عاری یہ لوگ تہذیبی شعور اور انسانی لطافت کے دشمن ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج مجھے بار بار امام خمینیؒ کی ہفتہ وحدت کے بارے میں کی گئی تاکید یاد آرہی ہے۔ اہل اسلام حالات سخت ہوچکے ہیں، دشمن نے ہمیں اندر سے تقسیم کر دیا ہے، وہ دن رات ہمیں لڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ہفتہ وحدت منانا بہت ضروری ہوچکا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ امام خمینیؒ کے پیغام وحدت امت کو عام کریں۔ یاد رکھیں ایسے حملوں کے بعد اگر ہم باہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں تو دشمن کامیاب ہوگیا اور ہم بطور امت ناکام ہوگئے۔ ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا اور ان لوگوں کا محاسبہ کرنا ہے، جو اختلاف اور فرقہ واریت کی بات کرتے ہیں، جس سے دلوں میں نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔ ہمارا کردار باہمی جوڑنے والا ہونا چاہیئے، جو فتنے کے وقت میں کی گئی بات سے درگزر کرتے ہیں اور بدلہ لینے کی بجائے عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply