یادوں کے فرش پر بنی لحد۔۔اسد مفتی

تویہ بھی ہونا تھا… ایک خبر کے مطابق مولانا محمد علی جوہرکی قبر کو شہید کرکے اس جگہ پر ایک یہودی عبادت گاہ تعمیر کردی گئی ہے ۔مزار سے متعلق انڈوپاک کے زائرین کیلئےقائم رہائش گاہ کو اسرائیلی فوجیوں نے پہلے ہی مہندم کردیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر جنہوں نے اپنی آخری آرام گاہ کیلئے سرزمین القدس اس لئے طلب کی تھی کہ آزادی کا وہ متوالا غلام ہندوستان میں دفن ہونا نہیں چاہتا تھا، اس کے ساتھ قدرت کا یہ عجیب مذاق ہے کہ اس کا وہ مدفن دنیا کے بدترین سامراج کے پیروں تلے روندا جارہا ہے۔ جب مولانا جوہر کو سپرد خاک کیا گیا تب اس جگہ اسرائیل کا قبضہ نہیں تھا تب یہ پیغمبروں کی سرزمین تھی۔ سی این این پر یروشلم کے قدیمی حصے کی چھوٹی اینٹ سے بنی گلیوں، درودیواروں، بازاروں اور قہوہ خانوں کو ٹی وی کی چھوٹی اسکرین پر دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے ہم تاریخ سے بالمشافہ ملاقات کررہے ہیں۔ ایسے میں گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑنے پر مجبور کردیتا ہے اور خیال ہے کہ عظیم مسیحا کواسی راہ سے اپنی صلیب اپنے ہی کندھے پر اٹھائے گزرتے دیکھتا ہے، جس نے صلیب پر چڑھ کر یہ ثابت کردیا کہ ظلم وجبر سے انسانیت کو نجات دلانے کا راستہ صلیبوں سے ہوکر گزرتا ہے مگر غم تو یہ ہے کہ صلیبوں کے اس مقدس شہر میں ابھی تک غیر ملکی غاصبانہ قبضے کی میخیںپیوست ہیں۔ سارا شہر ہی صہیونی جارجیت کی صلیب پر ٹنگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یروشلم ہی کیا فلسطین کے بیشتر شہر گائوں اور قصبے اسرائیل کی بربریت کا شکار ہوچکے ہیں ۔ہرروز سینکڑوں فلسطینی جام شہادت پی رہے ہیں۔ لاکھوں بے گھر وبے وطن ہوچکے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں سے گھری آبادی میںاگر کسی یہودی کا گھرہوتو وہ زمین کا ٹکڑا’’ اسرائیلی سرزمین‘‘ کہلاتا ہے اسکی حفاظت کیلئے اسرائیلی فوج کو کچھ بھی کرنے کا حق حاصل ہے حتیٰ کہ وہ وہاں ہروقت موجود رہ سکتی ہے ۔آنے جانے کیلئے اسرائیلی فوج کو فلسطینی علاقوں کی سڑکیں اور گلیاں استعمال کرنے کا حق حاصل ہے اور جو لوگ اسرائیلی دہشت گردی سے تنگ آکر اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ مسلم ممالک میں بس گئے ہیں انہیں اپنے گھروں اور شہروں میں واپس آنے کیلئے اسرائیلی حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔آپ جانتے ہیں یہی امریکی، اسرائیلی انصاف ہے۔ اسرائیل کو امریکی سرپرستی شروع ہی سے حاصل رہی ہے، درمیانی عرصہ میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو کچھ پذیرائی بھی ملی تھی اور1967کی جنگ میں اسرائیل نے فلسطینیوں کا جو علاقہ ان سے چھین لیاتھا اس میں سے کچھ انہیں بعض شرائط کے ساتھ واپس کردیاتھا لیکن اسرائیل یہ مطالبہ کرتا رہا کہ یاسر عرفات اس مزاحمتی تحریک کوختم کردیں جو فلسطینی1967میں چھینے گئے علاقے اور بقیہ مقبوضہ فلسطین کی واگزاری کیلئے چلا رہے ہیں۔ یہ تحریک حماس چلارہی تھی جس پر مرحوم یاسرعرفات کا کنٹرول نہیں تھا مگر اسرائیل اسکی کارروائیوں کا بدلہ فلسطینیوں سے لے رہا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی شہروں کو گزشتہ کئی برسوں سے محصور کررکھا ہے اور ادھر کچھ عرصہ سے امریکہ نے بھی فلسطینی انتظامیہ سے بول چال بند کررکھی ہے، امریکہ کی بے رخی دیکھ کر اسرائیل کے وزیراعظم نے واشنگٹن جاکر امریکی صدر ٹرمپ کو فلسطینی انتظامیہ سے بالکل قطع تعلق کرلینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اپنی کوششوں میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکا۔ ایک امریکی عہدہ دار نے فلسطینی انتظامیہ کے اس خط کو جوانہوں نے یروشلم کے امریکی قونصل جنرل کی معرفت بھیجا تھا، مثبت قرار دے کر متوازن ڈپلومیسی کا اشارہ دیا۔ ان دنوں امریکی وزیر خارجہ،اسرائیلی وزیراعظم اور فلسطینی راہنما سے ملاقاتیں کررہے ہیں امید ہے جلد ہی اسرائیل فلسطینی علاقوں سے فوجیں نکال کراپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گا۔آج اگر امریکی صدر’’ فلسطینی دہشت گردی‘‘ روکنے کیلئے انتظامیہ کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’ جب تک دہشت گردی بند نہیں ہوتی تب تک فلسطینی اور اسرائیلی حکومت کے درمیان بات چیت دوبارہ شروع نہیں ہوسکتی‘‘۔ اس کے جواب میں فلسطینی راہنما اور عہدہ دار کہتے ہیں کہ ’’ ہماری رائے میں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کا دارومدار پوری طرح نیتن یاہو پر ہے۔ امریکہ کو اپنی پالیسی بنانے، چلانے کا پورا حق ہے لیکن ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم امریکی اور اسرائیلی مفادات کا خیال ولحاظ کئے بغیر اپنے مفاد کے مطابق پالیسی اختیار کریں‘‘۔

اب وہاں یادوں کا بکھرا ہوا ملبہ ہی تو ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

جس جگہ عشق نے بنیادِ مکاں رکھی تھی

Facebook Comments