کیا بُرائی خُدا سے منسوب ہے؟/احسن رسول ہاشمی

برائی کیا ہے؟ یہ کیوں موجود ہے؟ یہ کہاں سے آتی ہے؟ کیا یہ محض اچھائی کی تعریف کیلئے ہے یا اس سے زیادہ اہم ہے ؟ کیا برائی فریبِ نظر، ایک واہمہ تو نہیں؟ کیا برائی فطری ہے یا فوق الفطرت قوت کا نتیجہ ہے؟

ایسے ہی بے شمار سولات صدیوں سے موضوعِ بحث رہے ہیں،اس کی کوئی حتمی تعریف نہیں کی جا سکتی لیکن تصورِ برائی قدیم و جدید مذاہب سے لیکر فلسفہ و سائنس حتیٰ کہ  وحشی اقوام میں بھی پایا جاتا تھا،جو آج تک بدستور موجود ہے۔تصورِ برائی کو لوک داستانوں، قصہ کہانیوں، ڈراموں اور فلمز کی صورت پیش کیا جاتا ہے۔ہزاروں سالوں پر محیط یہ تصورِ برائی عہدِ طفولیت سے ہی ہمارے لاشعور میں سرائیت کر جاتا ہے جو آگے چل کر ہمارا دنیا کو دیکھنے کا انداز متعین کرتا ہے۔

جس طرح اندھیرے کی عدم موجودگی میں روشنی کا ذکر بے معنی ہے، اسی طرح تصورِ برائی کے بنا اچھائی اپنی تقابلی اہمیت کھو دیتی ہے۔کسی نے برائی کو انسان میں دیکھا تو کسی نے اسے شیطان کی کارستانیاں قرار دیا۔ سومیر و عکاد میں تیامت، نرگل اور لوورے کو برائی کا موجب قرار دیا گیا۔ مصریوں نے اسے سیت کا نام دیا تو یونانیوں کے ہاں یہ ٹائیفون کا روپ اختیار کر گیا۔ فارسی ثنائیت کے روحِ رواں زرتشت نے اسے اینگرومینیوش ( اہرمن ) کہا تو بدھ مت میں اسے ” مارا ( مار )” کہا گیا۔

سر زمینِ ہندوستان نے اسے راکھشس کے روپ میں دیکھا تو ٹیوٹن واسیوں نے اسے لوکی کی چالاکی کا نام دیا۔

کیرس کہتا ہے کہ ” کیا برائی اشیاء کو صرف ایک ہی رخ سے دیکھنے کا نتیجہ نہیں؟ کیا شیطان کی موجودگی کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم زندگی کو اپنے داخلی اور موضوعی نکتۂ نظر سے دیکھتے ہیں اوردنیا کی معروضی حقیقت کا ادراک حاصل ہوتے ہی یہ تصور زائل ہو جاتا ہے” ۔

سو ہو سکتا ہے جو بات، کام یا شئے آپ کے لیے اچھی ہے لیکن دوسروں کے نزدیک وہ برائی کا منبع ہو۔ایسوپ کی حکایت میں بھیڑیا کہتا ہے کہ ” تمہارے لیے بھیڑ کھانا درست اور میرے لیے بھیڑ کھانا غلط کیوں ہے؟

جنگ عظیم دوئم کے بعد اس متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ایپیکورس ، ارسطو اور افلاطون سے لیکر نطشے و کانٹ تک بے شمار فلسفیوں نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ہر ایک نے اسے اپنے مطابق بیان کیا، کسی نے اس کے حق میں دلائل دیے تو کسی نے مخالفت میں دلائل کے انبار لگا دیے۔

سب سے زیادہ مقبولیت ایپیکورس کو حاصل ہوئی ہے اور آج تک اس کے اٹھائے سوالات پر بحث جاری ہے۔
ایپیکورس کہتا ہے کہ”برائی کہاں سے آتی ہے ؟ اگر یہ خدا سے منسوب ہے؟ تو کیا خدا برائی کو روکنے کے لیے تیار ہے ؟ اگر نہیں تو پھر وہ اس پر قادر نہیں ہے؟ کیا وہ قادر ہے؟ اگر ہے تو رضامند نہیں ہے؟
اگر وہ قادر اور رضامند ہے؟ تو پھر برائی کہاں سے آتی ہے؟ “۔

Advertisements
julia rana solicitors

صدیوں سے چلی آرہی یہ بحث آج تلک جاری ہے، لیکن کیا ہم اس کی درست تفہیم رکھتے ہیں یا نہیں؟
اس متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply