• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • محمد بن قاسم کا حملہ ایک تاریخی جائزہ۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/حصہ دوم

محمد بن قاسم کا حملہ ایک تاریخی جائزہ۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/حصہ دوم

محمد بن قاسم کے انجام اور قتل پر بہت دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک کا سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا
ہے بلکہ اس نے جس طرح باقی جرنیلوں سے ساتھ سلوک کیا اس کی وجہ سے اس کو تقریبا ایک ولن بنا کر پیش کیا جاتا ہے مگر اس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا۔
عبدالملک بن مردان نے اپنے بعد اپنے دو بیٹوں ولید اور سلیمان کو ولی عہد نامزد کیا تھا۔ عبدالمالک اور ولید بن عبدالمالک کی حکومتوں کا بڑا دارو مدار حجاج بن یوسف پر تھا حجاج بن یوسف کا خیال تھا کہ موثر حکومت رعایا کو دبانے اور ان کو قابو میں رکھنے سے ہی ممکن ہے ان پر سخت نگرانی رکھی جائے کسی بھی ممکنہ باغی کو قید کیا جائے اور کسی بھی اختلاف رکھنے والے کے خاندان سے کسی شخص کو مروا دیا جائے۔ عبدالمالک بن مردان اور ولید بن عبدالمالک کے ادوار میں اکثر صوبوں کے گورنر حجاج بن یوسف کے مشورے سے رکھے گئے اور مختلف فوجی مہموں کے لئے سپہ سالاروں کا تقرر اس کے مشورے سے کیا گیا چنانچہ قتیبہ بن مسلم، موسی بن نصیر اور محمد بن قاسم جیسے کامیاب فاتحین حجاج بن یوسف کی مرضی سے تقرر کئے گئے اور پورے ملک کو ایک خوف اور دہشت کی فضا میں رکھا گیا۔
خلیفہ ولید کے دور کو بنو امیہ کے عروج کا دور سمجھا جاتا ہے جب حجاج بن یوسف اور اس کے مقرر کردہ عاملوں نے پوری اموی سلطنت میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا پوری دنیا میں عرب ملوکیت کے سپہ سالار فتح حاصٖل کر رہے تھے، موسی بن نصیر اور اس کے غلام طارق بن زیاد نے سپین، قتیبہ بن مسلم نے وسطی ایشیا، محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرلیا تھا۔ پوری دنیا سے لونڈیوں اور غلاموں کی بڑی تعداد دمشق پہنچ رہی تھی اور یہاں غلاموں اور لونڈیوں کی بڑی منڈی لگ چکی تھی یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہو چکا تھا۔ لوگ اتنی تیزی سے مسلمان ہو رہے تھے کہ حجاج بن یوسف نے نومسلموں پر جزیہ برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔ ذمیوں کے حقوق تسلیم نہیں تھے ان کے قتل کا بدلہ سزائے موت نہیں تھا ان کی گواہی قابل قبول نہیں تھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے مساجد میں قابل اعتراض گفتگو کی جاتی تھی شیعان علی کو اپنا عقیدہ چھپانا پڑتا تھا خوارج کے لئے صرف موت کا حکم تھا۔
مگر بنوامیہ کے دو ممتاز افراد ولید اور حجاج بن یوسف کی ان پالیسیوں کے سخت خلاف تھے۔ ایک ولید کا ولی عہد اور بھائی سلیمان بن عبدالمالک اور دوسرا اس کا چچا زاد بھائی جناب عمر بن عبدالعزیز۔ ولید بن عبدالمالک اور حجاج بن یوسف کو سلیمان بن عبدالمالک کے خیالات کا پتہ چل چکا تھا ان کی کوشش تھی کہ سلیمان کو ولی عہد کے عہدے سے ہٹایا جائے اس کے لئےکوششوں آغاز ہو چکا تھا حجاج بن یوسف کے دونوں بڑے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم اور موسی بن نصیر ان کوششوں میں حجاج بن یوسف اور ولید بن عبدالمالک کے حمایتی تھے مگر حجاج بن یوسف کی اچانک موت نے ان کوششوں کو ناکام کردیا
ولید بن عبدالمالک کی وفات کے بعد سات سو پندرہ عیسوی میں سلیمان تخت نشین ہوا
سلیمان صرف دو سال حکمران رہا اور عجیب بات یہ ہے کہ مورخین اس کے بارے میں منفی باتیں کرتے ہیں کہ اس نے تمام فتوحات روک دیں، حجاج بن یوسف کے تمام سپہ سالاروں کو پکڑ لیا اور تیزی سے پھیلتی ہوئی عرب سلطنت کے پھیلنے کی رفتار روک دی۔ مگر سلیمان کا ایک منصفانہ جائزہ نہیں لیا جاتا
سلیمان خلیفہ بننے سے پہلے ہی عرب لشکر کی بدعنوانیوں، حجاج بن یوسف کے مظالم۔ انسانوں کو غلام اور لونڈی بنانے، عوام پر ظلم کرنے کے خلاف تھا اس لئے اس کے بارے حجاج بن یوسف اور ولید مطمن نہیں تھے وہ اس کو ولی عہدی سے محروم کرنا چاہتے تھے مگر حجاج بن یوسف کی اچانک موت نے ولید کے ارادے کو ناکام بنا دیا اور ولید کی موت کے بعد سلیمان تخت نشین ہوا۔
سلیمان نے تخت نشین ہوتے ہی تمام فوج کشی کو روک دیا، اس نے خوارج کے خلاف کاروائی کو بھی نرم کردیا شیعان علی کے خلاف بھی کاروائیوں کو ختم کردیا۔
سلیمان تخت نشین ہونے کے تمام فوجی سپہ سالاروں کو اپنے عہدوں سے برخاست کر دیا
اس نے حجاج بن یوسف کے مظالم اور اس کے شریک کاروں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا۔ چنانچہ محمد بن قاسم کے خلاف کاروائی ہوئی قتیبہ بن مسلم کے خلاف کاروائی ہوئی موسی بن نصیر کے خلاف اس کے غلام طارق بن زیاد نے گواہی دی
اس نے حجاج کے زمانہ میں مقرر کیے گئے عاملوں کو ہٹا کر ان کی جگہ دوسرے حاکم مقرر کیے گئے۔ اس طرح سلطنت سے ظلم کا خاتمہ کیا۔ ولید کے زمانہ کے تمام قیدیوں کو جنہیں بغیر کسی جرم کے یا محض شک و شبہ کی بنا پر قید خانے میں ڈالا گیا تھا ان تمام قیدیوں کو رہائی ملی اور جیل خانے خالی ہو گئے۔ اسی سلسلے میں محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے عراق کے گورنر صالح بن عبدالرحمن کے پاس بھیجا گیا
حجاج نے اپنے زمانہ اقتدار میں صالح کے خاندان والوں کو قتل کروایا تھا۔ چنانچہ صالح نے اب اپنے خاندان والوں کے قتل کے بدلہ میں محمد بن قاسم کو گدھے کی کھال میں سی دیا جس سے دم گھٹنے کی وجہ سے محمد بن قاسم کی موت ہوئی صالح کا الزام تھا کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کے اس جرم میں شریک تھا ۔
قیتبہ بن مسلم نے خلیفہ کو اپنی اطاعت اور وفاداری کے اظہار اور یقین دہانی کے لیے خطوط لکھے۔ سلیمان نے بھی اس کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تھا۔ لیکن قیتبہ کو اپنے جرائم کا معلوم تھا وہ حجاج کا قریبی ساتھی تھا اور اس کے جرائم میں شامل رہا تھا اسے خطرہ تھا کہ اس کے خلاف کاروائی ہوگی اور اسے سخت سزا ملے گی اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر بغاوت کر دی۔ مگر اس کی فوج نے ساتھ نہ دیا۔
انھوں نے اسے قتل کرکے اس کا سر سلیمان کے پاس روانہ کر دیا۔ قتیبہ کے بعد یزید بن مہلب کو خراسان کا والی مقرر کیا گیا۔
موسیٰ بن نصیر مال غنیمت اور زر و جواہر کے ساتھ پایہ تخت واپسی کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ سلیمان کی ولی عہدی کو ختم کرنے کی کوششوں میں اس ولید کا ساتھ دیا جائے اور اس دولت کو استعمال کیا جائے سلیمان نے تخت نشین ہونے کے بعد موسیٰ بن نصِر کے خلاف کاروائی کروائی موسی بن نصیر کا غلام طارق بن زیادہ اس کے خلاف گواہ بنا تھا اس لئے موسی بن نصیر کو اس کے تمام اعزازات اور مناصب سے یکسر محروم کر دیا اور اس کی تمام جائداد ضبط کر لی اس پر کئی لاکھ کا جرمانہ نافذ کر دیا۔ موسی اس قدر کثیر رقم بطور جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہ تھا۔ کہاں فاتح سپین کی حیثیت سے شاہانہ تزک و احتشام اور کہاں اب ایک تنگ دست انسان جو دو لقموں کا بھی محتاج ہو۔ اسی کسمپرسی اور تباہ حالی میں اس کا انتقال ہو گیا۔
سلیمان کی خدا ترسی، نیک نفسی اور رعایا پروری کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جس کی وجہ سے اسے ایک اصلاح پسند شخصیت مانا جاتا ہے۔ جیسے اوپر بیان کیا جا چکا ہے اس نے حجاج کے مقرر کردہ ظالم عاملوں سے عوام کو نجات دلائی، اور مفتوحہ علاقوں سے بھی حجاج بن یوسف کے مقرر کردہ سپہ سالاروں کو ہٹایا گیا عدل انصاف کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی گئی ولید کے زمانہ کے قیدی رہا کر دیے گئے اور جیل خانوں کے دروازے کھول دیے مگر سب سے بڑا کارنامہ لوگوں کے پینے کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کرنا تھا ،
اس کے دور میں عوامی فلاح پر اتنی توجہ دی گئی کہ مورخین اسے مفتاح الخیر کا لقب دیتے ہیں۔ سلیمان بن عبدالمالک کی خواہش تھی کہ اس کی اصلاحات کے عمل کو جاری رکھا جائے اس لئے اس نے اپنی دانست میں بہترین شخصِت جناب عمر بن عبدالعزیز کو اپنا ولی عہد مقرر کیا

تاہم سلیمان بن عبد الملک کی خواہش تھی کہ اس کے دور میں قسطنطنیہ فتح کیا جائے۔ بڑے زبردست پیمانہ پر جنگی تیاریوں کا آغاز کیا گیا۔ افواج اس مہم میں شمولیت کے لیے منظم کی گئیں۔ سامان جنگ، اسلحہ، قلعہ شکن آلات اور سامان رسد کے ذخیرے جمع کیے گئے۔ یہ لشکر جرار مسلمہ بن عبدالمالک کی سربراہی میں روانہ ہوا۔ بری اور بحری دونوں اطراف سے قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا۔ خود مسلمہ خشکی کے راستہ ایشیائے کوچک سے ہوتا ہوا بڑھا۔ مسلمہ قسطنطنیہ پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی ماہ جاری رہا۔

صفر 99ھ دسمبر 719ء میں سلیمان نے وابق کے مقام پر وفات پائی اس کے بعد جناب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنے جنہوں نے خلیفہ بنتے ہی مسلمہ کو فوری واپسی کے احکامات صادر کیے اور اس طرح یہ مہم ناکام ہوئی ۔

وفات کے وقت اس کی عمر 45 سال اور مدت خلافت دو سال آٹھ ماہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جناب عمر بن عبدالعزیز نے تمام جنگی کاروائیوں کو روک دیا مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار مخالف مسالک کو تسلیم کیا گیا شیعان علی اور خوارج کو اپنے عقیدے کے مطابق رہنے کی آزادی دی، حضرت علی کے خلاف ہر قسم کی قابل اعتراض گفتگو پر پابندی لگادی، لونڈیوں اور غلاموں کا کاروبار ختم کیا
غیر مسلم ذمیوں کو پورے حقوق دیئے۔ ان کو جان و مال کا پورا تحفظ دیا۔ لوٹی ہوئی جائدادوں اور دولت کو واپس کیا۔ سلیمان کے اڑھائی سال اور جناب عمر بن عبدالعزیز کے تقریبا اڑھائی سالوں کہنے کو صرف پانچ سال بنتے ہیں مگر ان پانچ سالوں میں عوام کی فلاح کے بہت سے منصوبے بنے۔ اور اس دور کو عربوں کی تاریخ میں سب سے زیادہ رعایا پرور دور قرار دیا جاتا ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply