• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خلیفہ بغدادی کا خطبۂ فرار اور آئندہ کا منظر نامہ

خلیفہ بغدادی کا خطبۂ فرار اور آئندہ کا منظر نامہ

ثاقب اکبر
داعش کے نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی نے موصل کی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے تکفیری ساتھیوں کے نام خطبۂ فرار جاری کیا ہے، جسے ان کے لواحقین خطبۂ وداع قرار دے رہے ہیں۔ دنیا بھر کی خبر رساں ایجنسیوں نے یکم مارچ 2017ء کی رات ہی اس طرح کی خبریں نشر کرنا شروع کر دی تھیں۔ 2 مارچ کو بالآخر عالمی اداروں نے اس خبر کی تصدیق کر دی، جس کے مطابق عراق کے صوبے نینوا میں داعش کے خلیفہ ابو بکر البغدادی نے عراقی افواج کے سامنے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ بغدادی نے اپنے دہشت گرد گروہ کے خطیبوں کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ اس موضوع پر داعش سے وابستہ افراد کے سامنے صورت حال کو واضح کریں اور جو لوگ نینوا اور دیگر علاقوں میں موجود ہیں، ان سے کہیں کہ وہ پہاڑی علاقوں کی طرف فرار کر جائیں۔ بغدادی نے اپنے پیغام میں خاص طور پر الجبلیہ اور الوعرہ کی طرف فرار کرنے کا تقاضا کیا ہے۔ یہ عراق اور شام کے مابین وہ علاقے ہیں جو ابھی تک داعش کے قبضے میں ہیں۔ بغدادی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جو افراد فرار نہ کر سکیں اور محاصرے میں آجائیں، وہ پھٹ جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ پھٹنے کے بعد بغدادی کے یہ ’’مجاہد‘‘ جنت میں جائیں گے، جہاں ان میں سے ہر ایک کے حصے کی 72 حوریں ان کے انتظار میں ہیں۔ بغدادی نے اپنی شوریٰ کے بچے کھچے افراد کو بھی تیزی سے شام کی سرحد کی طرف بھاگنے کا حکم دیا ہے۔

دوسری طرف شام اور عراق کے اعلٰی سطحی حکام کے مابین رابطہ ہوا ہے، جس میں طے کیا گیا ہے کہ دونوں ملک باہم اشتراک سے ان تکفیری دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شام اور عراق کی سرحد پر موجود یہ وحشت ناک گروہ اب دونوں طرف سے دونوں ملکوں کی فتح یاب افواج کے درمیان گھرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابھی موصل ہی سے داعش کی عبرتناک شکست کی خبریں آ رہی تھیں کہ ایسے میں شام کے اندر داعش کے ہاتھوں میں موجود حلب کے بعد سب سے اہم شہر پالمیرا میں بھی داعشی شکست کھا گئے ہیں۔ گذشتہ روز یہ شہر پوری طرح شامی افواج کے قبضے میں آگیا۔ یہ شہر جو بہت تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور جسے اقوام متحدہ نے بھی تاریخی ورثے کی حیثیت دے رکھی ہے، کے بعض اہم تاریخی مقامات داعشی دہشت گردوں نے تباہ کر دیئے ہیں۔ ان میں بعض ایسے آثار بھی ہے جو 1800 سال پرانی تاریخ رکھتے ہیں۔ دسمبر 2016ء کے آخر میں شام کے دوسرے اہم ترین شہر حلب میں دہشت گردوں کی شکست کے بعد خطے میں یہ دہشت گرد گروہ پے درپے شکستوں کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ شام کی زمینی افواج کو روسی فضائیہ کی مدد حاصل ہے، جبکہ عراق کی افواج کو امریکہ کی مدد حاصل ہے۔ اب جب کہ اگلا ایک معرکہ شام اور عراق کی سرحد پر داعش کے خلاف ہونے جا رہا ہے، دیکھنا ہوگا کہ روس اور امریکہ آپس میں کس قدر اور کس طرح تعاون کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہیں، جبکہ زمین پر عراق اور شام کی افواج یقینی طور پر آپس میں تعاون کریں گی۔

اس سارے معرکے میں وہ علاقے جو دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں اور ترکی کی سرحد کے ساتھ ہیں، وہاں صورت حال کچھ اور بھی مختلف ہے۔ اس علاقے کی سب سے بڑی طاقت شام کی کرد ملیشیا کو سمجھا جاتا رہا ہے، جس نے داعش کے خلاف بہت کامیاب معرکے لڑے ہیں۔ اس شامی کرد ملیشیا نے ہی داعشی تکفیریوں سے منبیج کا قصبہ خالی کروایا ہے۔ اب اس کرد ملیشیا پر ترکی کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ یہ علاقہ خالی کر دے۔ ترک وزیر خارجہ نے 2 مارچ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ بات کہی، بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر شام کی کرد ملیشیا نے یہ علاقہ خالی نہیں کیا تو ترکی اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اس سلسلے میں خطے میں جو تزویراتی صورت حال پیدا ہوچکی ہے، اس کے مطابق روس، ترکی، شامی حکومت اور شامی اپوزیشن کے مابین سیزفائر کا ایک معاہدہ طے پا چکا ہے، جس پر عمل درآمد جاری ہے۔ فری سیرین آرمی اور بعض دیگر گروہ اس معاہدے کا حصہ ہیں۔ لہٰذا وہ علاقے جو داعش کے علاوہ دیگر اپوزیشن گروہوں کے قبضے میں ہیں، وہاں اس وقت سیز فائر پر عمل کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں شامی فوج اور روس کو شام کے اندر داعش کے خلاف نسبتاً تیز رفتاری سے کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ ایسے میں وہ گروہ جن پر ترکی کا اثر و رسوخ ہے، یقینی طور پر وہ بھی دباؤ میں آچکے ہیں۔ چونکہ اس امر کا امکان موجود ہے کہ داعش سے تمام تر علاقے خالی کروانے کے بعد شامی حکومت اور فوج کا رخ ان علاقوں کی طرف ہو جائے، جن پر جبھۃ النصرہ اور فری سیرین آرمی جیسے گروہوں کا قبضہ ہے۔

اس وقت ترکی اس صورت حال کے پیش نظر ہی شامی کرد ملیشیا پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ملیشیا کو داعش کے خلاف اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل ہے۔ یہ اس دور کے تقاضے کے مطابق کیا گیا فیصلہ ہے، جب ابھی شامی حکومت خاصی کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ اب زمین پر صورت حال خاصی تبدیل ہوچکی ہے۔ البتہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترکی واقعاً اس علاقے میں کوئی قابل ذکر فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور ترکی کے مابین نازک تعلقات ہیں، جو بڑی مشکل سے کسی حد تک بحال ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ایران کے ساتھ بھی ترکی نئے سرے سے ہم آہنگی کے راستے پر گامزن ہے۔ اس کا اندازہ پاکستان میں ایکو کے اجلاس کے موقع پر ایرانی اور ترکی صدور کے مابین ہونے والی ملاقات اور پھر اس کے بعد سامنے آنے والی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں بعض قابل اعتماد ذرائع نے اہم تر خبروں کا بھی انکشاف کیا ہے، جن کے پیش نظر ہم سمجھتے ہیں کہ ترکی شام کے اندر کسی قابل ذکر فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے بھی اولاً عراقی حکومت نے موصل کی جنگ میں ترکی کی خواہشِ شرکت کی مزاحمت کی۔ اب جبکہ عراقی حکومت ترکی کے ’’تعاون‘‘ کے بغیر میدان جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کر چکی ہے اور شامی فوج بھی پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہے تو ایسے میں ترکی کی طرف سے کسی فوجی کارروائی کا امکان کم ہی رہ جاتا ہے۔ داعش کی پے درپے ہزیمتوں کے بعد دیگر ملکوں سے آنے والے دہشت گردوں کی واپسی کا امکان خاصا بڑھ چکا ہے۔ اس سلسلے میں مغربی ممالک کی پریشانی بجا ہے، تاہم ہمارے خطے سے بھی بڑی تعداد میں دہشت گرد شام اور عراق میں داعش کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ اس کا ذکر گذشتہ دنوں سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک نے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں دیئے گئے انٹرویو میں کیا ہے۔ پاکستان میں ردالفساد آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ اس موقع پر اگر ہم اس آپریشن کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں اور یقیناً بنانا چاہتے ہیں تو داعشی دہشت گردوں کی پاکستان واپسی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ہم اس موضوع پر آئندہ کسی موقع پر مزید تفصیل سے بات کریں گے۔ ان شاء اللہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply