گئے دنوں کی یادیں (7)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں (7)۔۔مرزا مدثر نواز/کسی بھی دوسرے تہوار کی طرح شادی بیاہ میں بھی بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اور ایسے مواقع پر وہ اپنی موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شادی ہالز اور مارکیز کی موجودگی سے پہلے گاؤں میں کسی خالی جگہ پر تنبوں، کناتیں اور کرسیاں لگائی جاتی تھیں اور ایک طرف کھانا پکانے کا اہتمام گاؤں کے سیپی سرانجام دیتے تھے، ٹینٹ سروس ایک منافع بخش کاروبار ہوتا تھا۔ان دِنوں صرف کچھ میزوں پر ضیافت کا سامان لگایا جاتااور کھانا عام طور پر کھڑے ہو کر ہی کھایا جاتا، جونہی یہ آواز کان میں پڑتی کہ کھانا کھا لیں، ہر کوئی ایسے دوڑتا کہ آن ہی آن میں سب کچھ ختم ہو جائے گا اور اس کے لیے کچھ نہیں بچے گا، اب تو خیر کافی بہتری آ چکی ہے لیکن اتنی بھی نہیں۔ عام طور پر بڑی بڑی چپاتیاں لگائی جاتیں، مٹن یا بیف پکایا جاتا جو یا تو گھر کے پالتو جانورکا ہوتا یا خرید کر گھر پر ہی ذبح کیا جاتا، میٹھے میں متنجن کے ساتھ ساتھ گاجر کے حلوے اور آلوبخارے کی چٹنی کا بڑا چرچا تھا۔ نان دینے کا رواج ابھی زیادہ نہیں تھا، ان دنوں نان اتنے خاص ہوتے تھے کہ کچھ عورتیں اپنے بیگ میں چھپا کر گھر لے آتیں۔گاؤں کے چھوٹے بچے ہر بارات و ولیمہ پر بن بلائے مہمان ہوتے، اگر انہیں داخل ہونے سے منع کیا جاتا تو وہ داخلی دروازے کی بجائے دوسرے راستوں کو اپناتے جیسا کہ کناتوں کے نیچے سے ،لیکن ان موقعوں پر عام طور پر بچوں کو کھانے سے کوئی منع نہیں کرتا تھا۔

بارات جونہی گھر سے روانہ ہوتی، محلے کے گھروں سے عورتیں دودھ کا گلاس لے کر کھڑی ہوتیں ،جو دولہے و بارات کے دوسرے لوگوں کو پلایا جاتا، خالی گلاس کو دولہے کے گھر والوں کی طرف سے کچھ رقم ڈال کر لوٹا دیا جاتا، چھوٹے بچے بارات کے پیچھے اور دولہے کے ساتھ چل رہے ہوتے تاکہ بارات والوں کی طرف سے پھینکے جانے والے سکّے یا دوسرے روپے اٹھا سکیں۔ بارات نے اگر گاؤں میں ہی جانا ہوتا تو پیدل مختلف گلیوں سے گزر کر مقررہ مقام تک پہنچ جاتی جبکہ دوسرے گاؤں یا مقام پر جانے والی بارات کچھ دیر پیدل چل کر گاؤں سے باہر کھڑی بسوں و کاروں میں سوار ہو جاتی۔ دلہن کی رخصتی کے وقت اسے ایک ڈولی میں بٹھایا جاتا اور پھرپھولوں سے سجی کار تک پہنچایا جاتا۔ پہلے ڈولی اور پھر کار پر دولہے کے بھائی یا دوسرے رشتہ دار سکّے یا دوسرے نوٹ پھینکتے اور گاؤں کے بچے رخصتی سے بہت پہلے ہی انہیں حاصل کرنے کے لیے وہاں موجود ہوتے، عام ڈھول والوں کی بجائے پرائیویٹ فوجی بینڈ، بارات و ولیمہ پر مہمانوں کی تعداد، کھانے کی ڈشز کی زیادہ تعداد کو سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا۔ شادی سے پہلے تمام خاندان کو اکٹھا کیا جاتا، روٹھے ہو ؤں کو وفد کی صورت میں جا کر منایا جاتا، ہر ایک کے نخرے برداشت کیے جاتے ،جیسا کہ اگر فلاں آیا تو میں نہیں آؤں گا وغیرہ وغیرہ، مشورے کیے جاتے اور مختلف کام و انتظامات ان کے ذمے لگائے جاتے اور سب مل جل کر کام کرتے۔

جانے کہاں چلی گئیں وہ عیدیں جو ہم بچپن میں مناتے اور بڑی شدت سے انتظار کرتے تھے، جبکہ اب تو یہی شعر اکثر یاد آتا ہے
؎کتنے ترسے ہوئے ہیں خوشیوں کو
وہ جو عیدوں کی بات کرتے ہیں

آج کے برعکس خریداری صرف چھوٹی عید پر ہی کی جاتی، وہ بھی ڈیڑھ سے دو ماہ پہلے، تا کہ عید کے قریب خود ساختہ مہنگائی سے بچا جاسکے اور اسی کو بڑی عید پر دوبارہ استعمال میں لایا جاتا۔ نئے جوتوں، کپڑوں، کالے شیشے والی عینک، شیشہ و کنگھا، مہندی و خوشبودار تیل وغیرہ کو سنبھال کر رکھ دیا جاتا اور وقتاً فوقتاً  ان کا درشن کیا جاتا۔ چاند رات کو خوب گہما گہمی ہوتی، لوگ رشتہ داروں کے گھر جاتے، لڑکیاں مہندی سے اپنے ہاتھ سجاتیں، کون مہندی کے ساتھ ساتھ گھر میں مہندی تیار کی جاتی جس میں چائے والی پتی بھی استعمال ہوتی، چھوٹے بچے گلیوں میں کھیل کود میں مشغول رہتے۔ عید سے کچھ دن پہلے ہی دودھ جمع کرنا شروع کر دیا جاتا جس سے چاند رات کو ہی سپیشل ڈشز تیار کی  جاتیں، جنہیں صبح محلے اور رشتہ داروں میں بانٹا جاتا۔ عید کے ایک دو دن پہلے ہی آبادی سے باہر درختوں پر پینگیں چڑھا دی جاتیں جنہیں لڑکیاں اور لڑکے شام سے پہلے جاکر جھولتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply