کچھ عرصے سے خاص اس ریاست کے نام نہاد انتخابات کے بعد ہونے والے پے درپے واقعات یا اس سے پہلے ہونے والے واقعات اور سوشل میڈیا کی طاقت کو دیکھتے ہوئے بہت سارے سوال مجھے پریشان کیے ہوئے ہیں ـ شاید کہ اس ریاست کے اس طبقاتی نظام میں اس کے مالک حکمرانوں کے ہوتے سوال پوچھنا بہت بڑی گستاخی ہو، مگر کیا کریں کہ جاننے کے لیے پوچھنا تو ہے۔
میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا یہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، یہ نازک دور شاید چلتا ہی رہے۔ پہلے کتابوں کا دور تھا اس لیے بہت کچھ سمجھنے کے لیے کتابوں سے دوستی کرنا پڑتی تھی اور کتابیں پڑھ کر بہت کچھ سمجھ میں بھی آتا تھا۔ سوال اٹھتے تھے دماغ میں تو اور کتابیں پڑھ لیں۔ کسی سے پوچھ لیا، اخبار رسالوں میں جھانک لیا۔ کہیں نہ کہیں سے سوال اور اس کے جواب مل جایا کرتے تھے۔ پھر آیا ڈیجیٹل دور، پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا اور اب سوشل میڈیا ـ جیسے جیسے دور ترقی کرتا جا رہا ہے ہم پیچھے اور پیچھے جا رہے ہیں۔ پہلے پرنٹ میڈیا تھا تو کسی نے نہیں کہا کہ قومی پرنٹ میڈیا مگر آج بہت سارے چینلز کے چلتے یہ اصطلاح عام ہے کہ قومی میڈیا اور صوبائی میڈیا۔ پہلے بھی اخبارات میں بہت ساری چیزیں نہیں چھپتی تھیں، بہت ساری باتیں جن کے چھپنے پر غیراعلانیہ پابندی عائد تھی اور آج بھی ہے۔
جیسے پہلے بنگلہ دیش پھر بلوچستان، پھر ایم آر ڈی کی تحریک اور اب بلوچستان پختون خواہ کے حقیقی مسائل یا ملک میں لاپتہ افراد جیسے سنگین مسئلے پر کسی بھی ادارے سے اصولی اختلاف کرنے پر پابندی ہے۔ ہاں سوشل میڈیا میں ہلچل ہونے سے بہت سارے مسائل حل ہوئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے مسائل ابھی سوشل میڈیا سے اوجھل ہیں، جن پہ بات ہونی چاہیے۔ جیسے کہ اس نظام کی ناکامی اور یہاں موجود بہت ساری اقوام اور ان کے قومی حقِ حاکمیت پر بحث ہونی چاہیے۔
اس ملک میں قومی سوال آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں پہلے تھا۔ جس پہ کوئی بات کرنے کو تیار نہیں اور سوال یہ ہے کہ پاکستانی کیا کسی ایک کوئی قوم کا نام ہے؟۔ اگر ہے تو کہاں ہے؟۔ بقول ابنِ انشا جی کہ یہاں بنگالی ہیں، پشتون ہیں، بلوچ ہیں، پنجابی ہیں، سندھی ہیں اور دوسری اقوام ہیں، پھر پاکستانیت ایک قوم کا رٹا یہاں کے حاکم کیوں دہرائے جاتے ہیں؟۔ اگر مذہب کے حوالے سے کہتے ہیں تو یہ عرب مسلمان سارے ایک ملک کیوں نہیں بنے؟۔ الگ الگ عرب مسلمانوں کے ملک کیوں ہیں؟۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جو کہ قراردا پاکستان میں واضح طور پر لکھا گیا ہے، یہاں مختلف قومیں اپنی اپنی صدیوں سے موجود سرزمین پہ رہتی ہیں، کیا انہیں محض ستر سال کے قلیل عرصے میں ایک قوم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟۔
یہ ساری قومیں مختلف مزاج، مختلف زبان، مختلف رسم رواج، مختلف طبیعت، مختلف بود و باش کی حامل ہیں۔ کیا ان کے قومی مسائل حل کیے بغیر، حقِ حاکمیت دیے بغیر ایک کالونی ازم کے تحت چلایا جا سکتا ہے؟ اور سب سے بڑی بات حکمرانی کا حق صرف ان قوتوں کا ہے جنہیں ان قومی سوالوں سے خوف آتا ہو۔ اس صورت حال میں انہیں زیادہ دیر تک یک جا رکھا جا سکتا ہے؟۔
ایک ایسے نظام میں جو سراسر سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ ہو، جہاں حاکم جرنیل، کرنیل، سرمایہ دار، نواب، سردار، وڈیرے یا بڑے بڑے پیر ہوں۔ جہاں طبقاتی تفریق واضح نظر آتی ہو، وہاں صرف ایک مسئلہ ایک ایشو ایک سانحہ ایک قتل ایک پھانسی کے لیے لوگوں کا سڑکوں پر مارچ کرنا تبدیلی کی علامت سمجھا جائے گا یا وقتی ابھار، وقتی جوش جس سے حتمی فائدہ آخر میں حکمراں قوتوں کو ہی حاصل ہو گا۔
کیا اب بھی پاکستان کی تمام اقوام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نظام ان کے تمام مسائل کا حل ہے یا کہوں کہ کیا اس نظام میں واقعی اتنی طاقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے ہر انسان کے حقوق کی حفاظت کر سکے؟۔
اسد مینگل سے لے کر آج تک ہزاروں لاپتہ افراد جو اسی ملک کے شہری ہیں یا کامریڈ ناصر کی شہادت سے لے کر شہید قندیل صبا دشتیاری سے لے کر شہید ارمان لونی تک، کتنے پروفیسر، کتنے سیاست دان، کتنے سیاسی ورکر شہید یا لاپتہ کر دیے گئے یا مسخ کر کے سڑکوں، جنگلوں میں پھینک دیے گئے یا کار میں سوار کر کے زندہ جلا دیے گئے۔ کیا ان سب کا حساب مانگے بغیر یہ ریاست ایک مہذب ریاست بن سکتی ہے؟۔
نواب نوروز خان سے لے کر نواب اکبر اور بالاچ تک باچا خان سے لے کر منظور پشتین تک، جی ایم سید سے لے کر بھٹو اور بےنظیر تک، فیض احمد فیض سے لے کر حبیب جالب اور پروفیسر عمار تک کتنے کردار تھے، کردار ہیں، وہ کردار جو اب ہم میں نہیں، جنہیں شہید کیا گیا، جنہیں غدار کہہ کر ذلیل کیا گیا یا جنہیں آج بھی مختلف طریقے سے سچ بولنے سے روکا جا رہا ہے۔ کیا ان سب کے ہوتے ہم خود کو، اس دیس کو ایک فطری ریاست قرار دے سکتے ہیں؟۔
تمام اقوام کے درمیان ایک سوشل معاہدہ ہی اس ملک کو چلا سکتا ہے۔ ایک تو اس وقت آئین پاکستان ہے جو اب اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ اب ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے جو ان تمام اقوام کی مشترکہ جہدوجہد سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ اس کے لیے تمام مظلوموں کا اتحاد ضروری ہے اور اتحاد کے لیے نظریہ ضروری ہے جو کہ ابھی کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔
پشتون تحفظ موومنٹ ایک حادثاتی تحریک ہے، اسے منظم کر کے پشتون قوم کو یکجا کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر منظم دھرنوں، جلسوں تک وہ اپنے آپ کو منوا رہے ہیں۔ مگر اس استحصالی نظام میں پنجاب کے غریب مزدور بھی تو ہیں، صرف ایک سانحہ، ایک قتل کے بعد وہاں شور اٹھتا ہے، مزاحمت غیر منظم انداز سے ابھرتی ہے، مگر جوں ہی اس سانحہ کے محرکات کو ختم کیا جاتا ہے یا کچھ گرفتاری ایک دو پھانسی کے بعد سب جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ کیا یہ وقتی ابال، وقتی غم و غصہ کسی تبدیلی یا انقلاب پیش خیمہ بن سکتا ہے؟۔ یا اس چھوٹے سے وقتی ابار کے بعد پھر برسوں کی خاموشی بھی ظالم کے حق میں ہی جائے گی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایشو در ایشو سے بہت سارے بنیادی مسائل پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں یا چھپائے جاتے ہیں؟ اور اس سے مظلوم طبقہ اور زیادہ منتشر نہیں ہو رہا؟۔
کیا بلوچ جو کئی برسوں تک کئی منظم تحریکوں کے سرخیل رہے ہیں، جہاں آج ریاستی جبر کی وجہ سے سیاسی منظر نامے پر خاموشی چھائی ہوئی ہے، کیا یہاں بھی پشتون تحفظ موومنٹ طرز کی کوئی تحریک ابھر سکتی ہے؟ کیا صرف سوشل میڈیا اور ماما قدیر کے مسنگ پرسن تک ہی جہدوجہد محدود رہے گی؟۔ کیا بلوچستان میں صرف بندوق کی آواز ہی گونجا کرے گی، بندوق سے ہی بات ہو گی یا عزیز مگسی، عنقا، گل خان نصیر، میر غوث بخش بزنجو جیسا کوئی رہنما بلوچستان میں کی قسمت میں بھی آئے گا جو سب کو متحد کر کے ایک نئی متحدہ بلوچ سیاست کی بنیاد رکھ سکے گا؟۔
سندھ میں انتظامی اور سیاسی حوالے سے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ صرف پیپلز پارٹی ایک پارٹی ہے جو ایکشن میں ہے، وہ چاہے صوبائی حکومت ہو کرپشن ہو یا بدانتظامی کا معاملہ، اور کوئی تحریک نظر نہیں آ رہی۔ اپوزیشن میں دم خم نظر نہیں آتا۔ قوم پرست پارٹیاں کہاں اور کیا کر رہی ہیں، کسی کو نہیں معلوم۔ سندھ میں شہری اور دیہی تفریق ایک تضاد بن کر خلیج کو واضح کر رہی ہے۔ کراچی کے حوالے سے بھی سب کی مبہم پالیسیاں ہیں۔ بیرون آبادکاری عروج پر سندھ کے حقوق پہ مرکز یا یوں کہیے پنجاب مستفید ہو رہا ہے۔ سندھ کے پانی پر پبجاب کی نظریں ہیں۔ ایک عجیب سی صورت حال سے سندھ دوچار ہے۔
مگر ایک واقعہ ہوتا ہے؛ جیے سندھ کے ارشاد رانجھانڑیں کو سرعام ایک یو سی چیئرمین رحیم شاہ ڈکیت کہہ کر گولی مار دیتا ہے۔ پھر زخمی کو ہاسپیٹل لے جانے نہیں دیتا۔ یہ ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے۔ سندھ کے لوگ صدائیں بلند کرتے ہیں، احتجاج ہوتا ہے، سوشل میڈیا پہ آگ سی لگ جاتی ہے۔ قاتل پکڑا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ رحیم شاہ کی گرفتاری سے یا اس کی پھانسی سے سندھ کے سب مسائل ختم ہو جائیں گے؟۔ یا پھر کسی حادثے کا انتظار کیا جائے گا اور پھر وقتی غصے کو سوشل میڈیا کے ذریعے بھڑکایا جائے گا۔ بات ختم، قصہ ختم۔ کیوں اس غصے کو مثبت سمت نہیں دی جاتی؟۔ کیوں سندھ کے نوجوانوں کو نظریاتی طور پر متحد نہیں کیا جاتا؟۔ کیا اس وقتی جوش اور غصے کو ہم تحریک کہہ سکتے ہیں؟۔ کیا ہم اس وقتی جوش کو ایک منظم تحریک کی شکل نہ دے کر خود کا نقصان نہیں کر رہے؟۔ کیا سندھ ایک بار پھر ایسے کسی حادثے کے انتظار میں خاموش ہو جائے یا اس وقت سرخ الارم کے طور استعمال کر کے ایک منظم نظریاتی جہدوجہد کا آغاز نہیں کر سکتے؟۔
مگر بات وہیں پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے کہ بلی کی گلے میں گھنٹی باندھے کون؟!۔
ایک آخری سوال جو اہم بھی ہے۔۔۔ کیا اس نظام کے رہتے ہوئے، اس جبر و ظلم کے رہتے ہوئے، اس گھٹن اور یہاں موجود ان دیکھی پابندیوں کے ہوتے ہوئے اس وقتی ابال، وقتی دھرنوں سے واقعی کوئی حقیقی تبدیلی آ سکے گی؟۔
یہ چند معصومانہ سوال ہیں، اگر کوئی ان میں اضافہ کرنا چاہے کر سکتا ہے، مگر سوال کے ساتھ جواب بھی ضروری ہے جو شاید کوئی دانش ور ہی دے سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں