• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وبا کے دنوں میں پروفیسر ابن کنول کے خالد سہیل کے نام ادبی محبت نامے(دوسرا،آخری حصّہ)

وبا کے دنوں میں پروفیسر ابن کنول کے خالد سہیل کے نام ادبی محبت نامے(دوسرا،آخری حصّہ)

خالد سہیل کا تیسرا ادبی محبت نامہ

قبلہ و کعبہ ابن کنول صاحب !

مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے میرے سوالوں کا تفصیلی جواب دیا۔ میری نگاہ میں ایک کامیاب ادیب اپنے ذاتی سچ کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے سچ کا بھی اپنی تخلیقات میں بھرپور اظہار کرتا ہے۔ اس طرح اس کا تخلیق کیا ہوا ادب اس عہد کا نمائندہ ادب بن جاتا ہے جس کے حوالے سے آنے والے عہدوں کے لوگ اس عہد کو پہچانتے ہیں اور وہ ادبِ عالیہ کا حصہ بن جاتا ہے۔

میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں کہ ادیب کے لیے مشاہدہ’ مطالعہ’ قوتِ متخیلہ ’ذخیرہِ الفاظ اور اظہار کا سلیقہ اہم ہیں لیکن میں ان عوامل میں تجربہ بھی شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ واردات کی اہمیت سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔

میری نگاہ میں بعض ادیب entertainmentکے لیے لکھتے ہیں اور بعضenlightenmentکے لیے۔میری نگاہ میں سب سے زیادہ قابلِ قدر ادب wisdom literatureہے جس میں اس عہد کی دانائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال لوک کہانیاں ہیں۔ میرے لیے ہمیشہ یہ بات دلچسپی کا باعث رہی کہ اکثر اوقات لوگ ان لوک کہانیوں کے ادیبوں اور خالقوں کو بھی نہیں جانتے۔ وہ نسل در نسل اجتماعی شعور و لاشعور ‘روایت و ثقافت کا حصہ بن جاتی ہیں اور سینہ نہ سینہ سفر کرتی ہیں۔ میں اسی لیے مترجموں کی بڑی قدر کرتا ہوں کیونکہ وہ ایک کلچر اور ایک عہد کی دانائی دوسرے عہد اور کلچر کے لوگوں کو تحفےکے طور پر پیش کرتے ہیں۔

بعض ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت میں تخلیقی صلاحیت پیدائشی طور پر وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے اور بعض ادیب اور شاعر ریاضت بہت کرتے ہیں۔

جہاں تک creative miscarriagesکا تعلق ہے میری نگاہ میں اس میں ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کے احساسِ کمتری کا بھی دخل ہے اوربعض اتنے مثالیت پسند ہوتے ہیں کہ ان کی اپنی تخلیق کے بارے میں رائے ہوتی ہے

It is good but not good enough

بعض ادیب شاعر اور دانشور کئی ادبی اسقاط کے بعد سنِ یاس تک پہنچ گئے۔

میں اپنے آپ کو اس حوالے سے خوش قسمت ادیب سمجھتا ہوں کہ میں آج بھی متواتر لکھ رہا ہوں جبکہ میرے کئی ہمعصر creative menopauseکا شکار ہو گئے ہیں۔

میں آپ سے متفق ہوں کہ ہمیں ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کو ان کی بہترین نہ کہ بدترین تحریروں سے جاننا اور پہچاننا چاہیے۔

اب آپ سے ایک اور سوال۔ آپ کی نگاہ میں کسی ادیب ’شاعر اور دانشور کی ذاتی زندگی کا ادبی زندگی سے کیا تعلق ہے اور اس کی شخصیت اس کے تخلیقی سفر کو کیسے متاثر ہوتی ہے؟

آپ کا مداح

خالد سہیل

۲ مئی ۲۰۲۰

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن کنول کا چوتھا ادبی محبت نامہ

بھائی خالدصاحب!

مجھے آپ کے بیان کردہ نظریات سے اتفاق ہے، دراصل کوئی بھی تخلیق خلا میں وجود میں نہیں آتی تخلیق کار کے ذاتی اوراطراف کے تجربات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ذاتی زندگی لاشعوری طور پر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں تخلیق میں شامل ہوجاتی ہے۔میر اور غالب کی شاعری کے فرق سے معلوم ہوجائے گاعصمت اور قرۂ العین کے افسانوں کے فرق سے پتہ چل جائے گا۔کوئی ادیب یا شاعر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے کسی کااثر قبول نہیں کیا۔کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا،۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابن کنول!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply