ماں: زمیں پر خدا کی محبت کا روپ ۔۔۔۔عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

“ماں ” ایک ایسا سہ حرفی لفظ ہے ؛جو ناقابل تسخیر محبت والفت کا حسین شاہ کار اوراولاد کے تئیں بے غرض ہمدردی وشفقت کا روشن مینار ہے، جس میں پیارو ممتا کی بے پناہ مٹھاس، ایثاروقربانی کا انمول احساس اوردل چسپی و دل بستگی کاہرسامان پوری فراوانی کے ساتھ اس طرح جلوہ گر ہے کہ دنیا کی ہر طاقت وقوت،ہر چاہت و الفت اس کے آگے ہیچ ہے۔ ماں اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں ، ماں کے بغیر اس دنیا میں کچھ بھی نہیں ۔ ماں کائنات میں انسانیت کی سب سے قیمتی متاع اورعظیم سرمایہ ہے۔ اسلام میں اولاد کی پوری زندگی،ماں کے تقدس،اس کی عظمت کے اظہار اور خدمت واطاعت کے لیے وقف ہے، اس کے لیے کسی دن کواس طرح مخصوص کرناکہ دوسرے ایام میں اس کی طرف التفات بھی نہ ہو، اسلامی روح کے سراسر منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ سال کا ہر مہینہ،مہینہ کا ہر دن اور دن کا ہر لمحہ والدین کی خدمت اور اطاعت کے لیے ہے۔

یوم مادرکاتاریخی پس منظر:

ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو عالمی سطح پر یوم مادر منانے کا اہتمام کیاجاتاہے ؛جس میں رسمی طور پر ماں کی عظمت کو اجاگر کرنے اور اس کی بلندپایہ خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی اپنی سی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس دن کاآغاز اپنے عہد کی ایک ممتاز مصلح شاعرہ، انسانی حقوق کی علمبردار اور فلاحی کام انجام دینے والی ایک خاتون جولیاوارڈ(Julia Ward)نے 1870عیسوی میں اپنی ماں کی یاد سے کیاتھا۔ بعدازاں 1877کو امریکہ میں پہلامدر ڈے منایا گیا تھااور 1908میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں انا میری جاروس(Anna Marie Jarvis) نامی اسکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو مدڈے کے نام پر منانے کاآغاز کیااور اس نے اپنی ماں این ریویس جاروس (Ann Reeves Jarvis)کی یاد میں اس دن کو قومی سطح پر منانے کی تحریک قائم کی اور باقاعدہ طور پر اس تقریب کا انعقاد امریکہ کے چرچ میں ہوا، جس میں اس نے اپنی ماں کو پسندیدہ پھول پیش کرکے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کیا۔ اس وقت کے امریکی صدروڈرولس نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طورپر منانے کااعلان کردیا اور اس دن سے آج تک ہرسال مئی کا دوسرا اتوار مدرڈے کے طور پر منایا جاتاہے۔ اسی مناسبت سے برطانیہ میں اس دن کو Mothering Sunadayبھی کہاجاتاہے۔ (ملخص از:مدرڈے ؛ایک تجزیہ)

جوماؤں نے خون جگرسے لکھاہے:

خود غرضی، مفادپرستی اور مادیت پسندی کے اس تیرہ و تاریک دور میں بے پناہ شفقت، بے کراں مروت اور بے لوث محبت کا واحد عنوان صرف ماں ہے۔ قدرت نے ماں کی مامتا کے مخالف کوئی بھی جذبہ ودیعت نہیں کیا، جیسے  مروت کی ضد میں بے مروتی اور نفرت کی ضد میں محبت کا جذبہ رکھا گیا، ماں کی ما متا کا وصف منفرد اور یکتا ہے ؛جس کا کوئی متبادل نہیں، نظام حیات میں سینکڑوں تغیرات آئے ہوں ،کائنات رنگ و بو میں ہزاروں انقلاب برپا ہوئے ہوں اور انسانیت اپنی فطرت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہو؛لیکن ماں کی محبت میں عموما کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ ماں چاہے کوئی بھی ہو، کیسی بھی ہو، کسی خطے سے تعلق رکھتی ہو، کچھ بھی کرتی ہو ممتا کے جذبہ سے سرشار پا ئی جاتی ہے۔ ماں سے منسلک تمام درجات مہذب دنیا ہو یا غیر مہذب، ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، سب کے نزدیک یکساں ہیں ۔ جنگل میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والا بچہ ہو یا گاؤں ، قصبہ میں رہنے والا، جوان ہو یا بوڑھا، ہر ایک انسان کے دل میں ماں کے لئے محبت و عقیدت ودیعت کردی گئی ہے، اور ہر ماں کو ممتا کے جذبے سے سرشار کر دیا گیا ہے اور رب کائنات کی رحمت کا یہ اظہار،انسان ہو یا چرند پرند درند سب میں نمایاں ہے۔ ماں کی محبت کوکبھی تولا نہیں جاتا، دنیا میں کوئی ایسا میزان نہیں جو ماں کی محبتوں اس کی بے قراریوں اور بے چینیوں کو تول سکے۔

“ماں” دانیانِ دین و دنیاکی نظر میں:

مقصود کائنات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے “۔حضرت رابعہ بصری نے کہاکہ “جب میں دنیا کے ہنگاموں سے تھک جاتی ہوں ، اپنے اندر کے شور سے ڈر جاتی ہوں تو پھر میں اللہ کے آگے جھک جاتی ہوں یا پھر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے جی بھر کے رو لیتی ہوں “۔ حضرت شیخ سعدیؒ نے کہا ’’محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے ‘‘۔ مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا ’’سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے ‘‘۔ الطاف حسین حالی نے کہا ’’ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے ‘‘۔مشہور مغربی دانشور جان ملٹن نے کہا ’’آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے ‘‘۔ اسی طرح شیلے نے کہا ’’دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ‘‘۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے۔ بوعلی سینا نے کہا: اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلی مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ تب میری ماں نے کہا مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔

یہ حقیقت ہے کو ئی نصیحت نہیں

ماں سے بڑھ کر کوئی اور دولت نہیں

اپنے منھ کا نوالہ کھلاتی ہے ماں

لوریاں دے کے شب بھر سلاتی ہے ماں

اپنے بچے کو روتا ہوا دیکھ کر

اپنا چین وسکوں بھول جاتی ہے ماں

ماں کی عظمت:

انسانی زندگی میں والدین کا مقام بہت بلند ہے۔ والدین کا مقام جاننے اور احترام کا حق ادا کرنے سے خاندان کا نظام مستحکم ہوتا ہے اورخیر و برکت انسان کا مقدر بنتی ہیں ۔ انسان ادب واحترام کا جتنا خیال رکھے گا معاشرہ اتنا ہی مہذب کہلائے گاورنہ پوراسماج تہذیب سے عاری اور اللہ کی رحمت سے دور ہو گا۔

ہر معاشرے اور مذہب میں والدین کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ نے انسان کو ان دو نعمتوں سے نواز کر بندے کو ایثار اور قربانی کا مفہوم سمجھا دیا۔ یہ وہ رشتے ہیں جو آخرت میں بھی ساتھ ہوں گے، روزِ قیامت انسان انہی رشتوں سے پکارا جائے گا۔ ماں باپ کے چہروں کو دیکھنا زیارت کعبہ کے مترادف ہے۔

قرآن میں مختلف مقامات پر والدین کا ذکر آیا ہے خصوصا چار جگہوں پر توحید کے ساتھ والدین کی فرمان برداری کا حکم دیاگیا، عظمت والدین کے لئے یہی کافی ہے کہ پروردگا ر عالم نے جب اپنی محبت کو عیاں کیا تو پیکر شفقت ” ماں ” کی ممتا کو بے لوث محبت کی چادر میں چھپاکر کائنات کی بساط پر پھیلادیا۔

حضور اکرم ﷺنے تو اپنی تعلیمات میں جا بہ جا والدین بالخصوص ماں کی عظمت شان اور رفعت مکان کو ظاہر کیا، چند احادیث یہاں ملاحظہ فرمائیں ! ایک بار ایک صحابیِ رسول، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺمیں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق اداکر دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ، تو نے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک شخص نے حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺسب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت (خیر خواہی)کروں ؟ فرمایا: تیری ماں ۔ عرض کیا پھر؟فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں ۔عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری )

 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ فرمایا: شوہر کا۔ میں نے عرض کیا: اور مر د پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ فرمایا: اس کی ماں کا(مستدرک حاکم )

ماں کے بلندترین مقام کو واشگاف کرنے کے لیے عہدنبوی کا یہ واقعہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قریب المرگ تھا مگرنہ تواُس کی زبان سے کلمہ جاری ہوتاتھااور نہ ہی اُسے موت آتی تھی۔ وہ نہایت تکلیف میں تھا۔صحابہؓ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور ساری کیفیت بتائی۔آپﷺنے پوچھا کیااس شخص کی والدہ زندہ ہے ؟ بتایاگیازندہ ہے مگراس سے ناراض ہے۔ تب آپ نے فرمایااس کی والدہ سے کہاجائے کہ وہ اسے معاف کردے۔ جب والدہ نے معاف کرنے سے انکار کیا تونبی کریم نے صحابہؓ کوحکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کوجلادیاجائے۔ جب اُس کی ماں نے یہ حالت دیکھی توفوراًمعاف کردیا۔ جب ماں نے اُسے معاف کیاتوپھراس شخص کی زبان سے کلمہ بھی جاری ہوگیا۔

یہ اور اس طرح کی بے شمار روایتیں ، احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں ؛ لیکن درد کی بات یہ ہیکہ دنیا جتنی تیزی کے ساتھ ترقیات کے منازل طے کر رہی ہے اسی تیزی کے ساتھ اخلا قی تنزلی آتی جا رہی ہے، آج دلوں میں ماں کی عظمت کا احساس نہیں، اس کی خدمت کا شعور نہیں ،اس کی ضرورتوں کا تکفل نہیں ، اس کی بیماری کا مداوی نہیں، ایک بے حسی سی سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے، ایک نحوست پس و پیش منڈلارہی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ والدین کے احسانات کو یادکیاجاتا،ان کی خدمات کا بدلہ دیاجاتا،انہیں پرسکون گھر اور اسباب حیات مہیاکیے جاتے اور ہر قسم کی تعب و تھکن سے انہیں مامون کردیاجاتا اورہر بیٹا زبان حال وقال سے یہ ترانہ گنگناتا کہ

میری ماں کی عظمت مِرے روبرو ہے

اسی کی محبت، فقط جستجو ہے

اگر کوئی رشتہ ہے چاہت کے قابل

فقط میری ماں ہے یہی آرزو ہے

تیری ہر خوشی پر میں صد بار صدقے

تو ہی تو ہے محفل تو ہی گفتگو ہے

تیرا ساتھ ہر دم رہے ہر قدم پر

یہی آرزو ہے یہی آرزو ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply