بحث و جستجو۔۔مرزا مدثر نواز

بحث و جستجو۔۔مرزا مدثر نواز/ہدایت کس کو ملتی ہے؟ طالبعلم نے اتالیق سے سوال کیا۔ قریب ہی لکڑی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا تھا‘ اتالیق نے اس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا اس میں سے کرنٹ کا بہاؤ ممکن ہے؟ نہیں‘ نارمل وولٹیج کے پریشر سے اس میں سے کرنٹ کا بہاؤ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ایک انسولیٹر ہے‘ شاگرد نے جواب دیا۔ درست فرمایا آپ نے‘ اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ یہ نارمل وولٹیج کے پریشر سے اپنے اندر سے کرنٹ کو گزار سکے یا اس میں سے کرنٹ سرائیت کر جائے‘ سادہ زبان میں اس نے کرنٹ کے داخلے کو روکنے کے لیے اپنے دروازے بند کئے ہوئے ہیں اور بانڈنگ اتنی مضبوط کر لی ہے کہ نارمل پریشر سے الیکٹرانز کی بانڈنگ کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا‘ اس بے جان چیز میں یہ طبعی خصوصیت تو قدرت کی طرف سے رکھ دی گئی ہے لیکن اس کے برعکس بنی نوع انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کے دروازوں پر ضد‘ انا‘ تکبرّ‘ چودھراہٹ کے تالے نہ لٹکائے‘ جستجو میں لگا رہے‘ ذہن کو کھلا رکھے‘ کنویں کا مینڈک نہ بنے‘ دل میں ہدایت کی امنگ کو زندہ رکھے‘ تحقیق پر کسی قسم کا روک نہ لگائے‘ اپنے معبود برحق سے ہدایت اور جہالت کی تاریک گھٹائیں چھٹنے کی دعا مانگتا رہے‘ ایسے لوگوں کو ہی رب کائنات ہدایت و حق سے نوازتا ہے اور یہی قانون قدرت ہے‘ اتالیق نے جواب دیا۔

وہ مانتا تھا کہ  مکہ کی گلیوں میں صدائیں لگانے والے   کی یہ بات سچ ہے کہ معبود صرف ایک اللہ ہے‘ قرآن کی صداقت پر اتنا یقین تھا کہ راتوں کو چوری چھپے رہبر کاملﷺ کی آواز میں تلاوت بھی سنتا‘ غلاف کعبہ پکڑ کر دعائیں بھی مانگتا‘ اس بات کا ڈر بھی تھا کہ کہیں  بنی کریم ﷺ  کوئی بد دعا ہی نہ دے دیں لیکن ساتھ ہی یہ ضد بھی تھی کہ اس کتاب پر کیسے ایمان لے آؤں جو کھلم کھلا ہمارے معبودوں کی نفی کرتی ہے کہ یہ کچھ نہیں کرسکتے‘ ہمارے باپ دادا جو کچھ کرتے آئے ہیں سب کی نفی کرنی پڑتی ہے‘ سب پر لکیر پھیرنی پڑتی ہے‘ یہ ہم سے نہیں ہو سکتا‘ میں مکہّ کا چودھری‘ وڈیرہ‘ سردار‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد ﷺ کی غلامی قبول کر لوں‘غریب غرباء‘ کمی کمین‘ غلام‘ کمتر‘ ادنیٰ درجے کے‘ جن کے پاس کھانے کو کچھ نہ پہننے کو‘ کے برابر بیٹھ جاؤں‘ تکبر کی انتہا کہ اپنے قاتلین کو یہ کہا کہ میری گردن ذرا نیچے سے کر کے کاٹنا تا کہ پتہ چلے کہ یہ کسی سردار کا سر ہے‘ لہٰذا حق کی پہچان ہونے کے باوجود‘ ضد‘ انا‘ ہٹ دھرمی‘ تکبر‘ بحث لاحاصل کے پردوں کی بدولت حق نصیب نہ ہو سکا اور تاریخ ایسے کرداروں کو ابو جہل کے نام سے یاد کرتی ہے۔

اہل کتاب ہیں جن میں سے بہت سے اہل علم ہیں جنہیں اپنی آسمانی کتابوں کی بدولت آئندہ آنے والے آخری نبی کی تمام نشانیوں کا بھی بخوبی پتہ ہے اور بڑی شدت سے انتظار بھی تھا۔ جب آپﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اہل کتاب کے علما  یہ جان گئے کہ یہ تو وہی آخری پیغمبر ہیں جن کی بشارتیں اور نشانیاں ہماری کتابوں میں درج ہیں لیکن یہ ضد آڑے آ گئی کہ ہم تثلیث کا عقیدہ کیسے چھوڑیں اور یہ قبول کر لیں کہ سب کچھ کرنے والا ایک اللہ ہے‘ حضرت مسیحؑ کو کیسے اس کا بندہ مان لیں؟ اس حسد کو کیسے ختم کریں کہ آخری نبی تو حضرت اسحاقؑ کی لڑی و اولادسے آنا چاہیے تھا‘ نبوت ہمارے چچا حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں کیسے منتقل ہو گئی وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا حق کی پہچان کے باوجود خود ساختہ بتوں کی بدولت حق کا انکار کر دیا گیا اور ہدایت سے محروم کر دیئے گئے۔

علم ایک سمندر ہے اور اس میں غوطہ لگانے والے کو ہی اس کی گہرائی کا ندازہ ہو سکتا ہے‘ جستجو کی نیت والا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے اور صرف بحث کرنے والا محروم رہ جاتا ہے‘ وہ مناظر جس کا مقصد علم کا حصول اور دوسروں کی رہنمائی ہوتا ہے وہ اپنے مقصد کو پالیتا ہے جبکہ اپنے علم کی دھاک بٹھانے والا‘ دوسرے کو نیچا دکھانے والا‘ واہ واہ و نعرے سننے والا‘ صرف خود کو ہی ہر لحاظ سے ہدایت یافتہ سمجھنے والا وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔بحث و جستجو کے ہمیشہ سے دو طریقے رہے ہیں:
ایک طریقہ وہ ہے جسے قرآن نے اپنی زبان میں ”جدل“ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جسے ”ہدایت“ کے لفظ سے پکارا ہے۔ ”جدل“ کے معانی لڑنے جھگڑنے کے‘ ”ہدایت“ کے معانی سیدھی اور سچی راہ اختیار کرنے کے۔ وہ تمام لوگ جو حقیقت و صداقت کے متلاشی نہیں ہوتے بلکہ کسی خاص خیال اور جذبہ سے اپنی کوئی بات منوانی اور دوسرے کی کوئی بات گرا دینی چاہتے ہیں‘ طریق جدل پر عامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو کتنا ہی حق کا طالب و مطیع ظاہر کریں‘ لیکن فی الحقیقت وہ حق کے نہیں‘ اپنی ہوائے نفس کے مطیع ہوتے ہیں۔ وہ سچائی کے متلاشی نہیں ہوتے کہ ہر موقع پر اس کے ظہور و علم کے منتظر رہیں‘ وہ محض اپنے کسی ٹھہرائے ہوئے خیال اور اعتقاد کے پجاری ہوتے ہیں اور اس لیے ہمیشہ اس تلاش  میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی بات منوالیں۔ مذاہب ِ عالم کے پُرجوش حامیوں‘ مذہبی مجالس کے زباں دراز مناظروں اور مذہبی بحث و نظر کے بنائے ہوئے نام نہاد علوم میں دسترس رکھنے والوں کا غالب حصہ اسی طریق جدل کی پیداوار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن دوسرا طریقہ طریق ”ہدایت“ ہے‘ یہ ان لوگوں کی راہ ہے جو سچ مچ کو سچائی اور حقیقت کے متلاشی ہوتے ہیں اور منوانے کے لیے بلکہ مان لینے کے لیے قدم بڑھاتے ہیں‘ وہ نہ تو کوئی خاص فریقانہ جذبہ رکھتے ہیں‘ نہ کوئی خاص فریقانہ دعویٰ‘ نہ تو انہیں کسی خیال اور رائے کی برتری ثابت کر دینے کی پچ ہوتی ہے‘ نہ کسی خاص خیال اور رائے کو زک دینے کا جوش۔ ان کی طلب‘ ان کی جستجو‘ ان کا عتقاد‘ ان کا مشرب‘ ان کا حلقہ‘ ان کی تمام کدوکاوش کی غرض و غایت‘ صرف یہی ہوتی ہے کہ حق کی تلاش کی جائے اور جب مل جائے تو اسے پہچان لیا جائے۔اس طریقہ کے رہرو کی ہر بات پچھلے طریقہ سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ مقصد و نظر و فکر کی روح میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ طریق جدل پر چلنے والے سچائی کے نہیں بلکہ سچائی کے نام پر جھگڑنے کے شائق ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی ہر بات میں ایک جھگڑالو اور کج بحث دماغ کی روح پائی جاتی ہے لیکن طریق ہدایت کا پیرو کسی حال میں بھی جھگڑالو و کج بحث نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی روح طلب حق کی روح ہوتی ہے اور حق کی طلب اور اس کی معرفت کا عشق کبھی بحث و نزاع کی نفس پرستیوں کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا۔ فی الحقیقت ان دونوں طریقوں میں نہ صرف اختلاف ہے بلکہ صریح تضاد ہے۔ پہلے کا نتیجہ ہے کہ حق کی طلب و معرفت کی استعداد ہی طبیعت انسانی میں باقی نہیں رہتی۔ دوسرے کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف حق ہی کی طلب و معرفت کا استغراق باقی رہ جاتا ہے۔ نفس و ہوس کی تمام غفلتیں اور خود پرستیاں معدوم ہو جاتی ہیں۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply