صرف میں ہدایت یافتہ ہوں (3)-مرزا مدثر نواز

آج ہم اور ہمارے علما  بھی صرف خود کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں اور دوسرے کی رائے کو پرکھے بغیر لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ جو انہوں نے پڑھ لیا یا استاد نے بتا دیا،وہی حرف ِ آخر اور حق جبکہ باقی سب باطل ،دلائل تو جیسے رخصت ہو چکے ہیں اور دوسرے کو دلائل سے قائل کرنا ایک خواب بن چکا ہے۔ سوال کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والے کو ہی غائب کر دیا جائے یا مار پیٹ کر کے اور دوسرے طریقوں سے اتنا ڈرا دھمکا دیا جائے کہ وہ آئندہ ساری زندگی سوال کرنے کا سوچے بھی نہ ۔ مساجد میں مقتدی‘ امام اور دوسرے دفاتر میں ماتحت، سربراہ کی کئی باتوں اور طریقوں سے اتفاق نہیں کرتے، آپس میں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے رہیں گے لیکن خود کہنے کی ہمت نہیں کریں گے کیونکہ انہیں نتائج کا بخوبی علم ہوتا ہے۔

جس معاشرے میں سوال کا جواب دلیل کی بجائے گولی بن جائے اور مثبت تنقید کو خوش آمدید نہ کہا جائے‘ وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ جن معاشروں نے بھی ترقی کی منازل طے کی ہیں وہ خالصتاً  جمہوری روایات کے پیروکار ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سوال اٹھانے اور جواب دینے کا رواج تو جیسے ختم ہو چکا ہے اور ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا مذہبی طبقہ بھی بہت زیادہ عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے اور توہینِ مذہب کے فتوے عام ہیں۔ اخلاق نبویﷺ یا دور خلافت میں پیش آنے والے جمہوری رویوں کی مثالیں دی جائیں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ عَالم میں ہوں کہ تُو؟  اور تُو مجھے اخلاق ِ نبوی سکھائے گا۔ جو جتنا اونچے مرتبہ پر ہو گا، اسے خود پر ہونے والی تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا ہو گا۔ عوامی تنقید کے مقابلے میں امام ابو حنیفہؒ کی برداشت کے چند واقعات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں جو کہ حسبِ ذیل ہیں۔

ایک دفعہ مسجد خیف میں تشریف رکھتے تھے‘ شاگردوں اور ارادت مندوں کا حلقہ تھا، ایک اجنبی شخص نے مسئلہ پوچھا، امام صاحب نے جواب مناسب دیا، اس نے کہا مگر حسن بصری نے اس کے خلاف بتایا ہے، امام صاحب نے فرمایا”حسن نے غلطی کی“ حاضرین میں سے ایک شخص کہ حسن کا معتقد تھا‘ طیش میں آ گیا اور جھلّا کر کہا ”او ابن الفاحشہ! تو حسن کو خاطی کہتا ہے“۔ اس گستاخی اور بیہودہ گوئی نے تمام مجلس کو برہم کر دیااور لوگوں نے چاہا کہ اس کو پکڑ کر سزا دیں۔ امام صاحب نے روکا، ان کے لحاظ سے لوگ مجبور ہو گئے،مگر دیر تک مجلس میں سناٹا رہا۔ لوگوں کا جوش کم ہواتو امام صاحب نے اس شخص کی طرف خطاب کیا اور فرمایا کہ ”ہاں حسن نے غلطی کی عبداللہ بن مسعود نے اس باب میں جو روایت کی ہے وہ صحیح ہے“۔

یزید بن کمیت کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر تھا‘ ایک شخص نے ان سے گستاخانہ گفتگو شروع کی۔ امام صاحب تحمل سے جواب دیتے تھے،وہ اور شوخ ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے امام کو زندیق کہہ دیا۔ اس پر فرمایا ”خدا تم کو بخشے،وہ خوب جانتا ہے کہ میری نسبت تم نے جو لفظ کہا صحیح نہیں“۔ امام صاحب خود فرمایا کرتے تھے کہ ”میں نے کسی پر لعنت نہیں کی‘ کسی سے انتقام نہیں لیا، کسی مسلمان یا ذمی کو نہیں ستایا، کسی سے فریب اور بدعہدی نہیں کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply