روشن خیال مذہبی مفکرین کا بیانیہ

روشن خیال تعبیر والے دوستوں کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مذہب کو ریاست کی طاقت کے بغیر سماج میں رواج دینے کی ضرورت ہے یہ سماجی اقدار اور تزکیہ نفس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی تشکیل کرنے والا ایک منبع ہے مگر جب ہم زوال کا شکار ہوتے ہیں تو ظاہر، عقیدے اور نظریئے کی سلامتی کا ڈھنڈوا پیٹتے ہیں اور دنیا سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ یہ ہم سے ہمارا عقیدہ چھین لے گی یا خراب کر دے گی۔
معذرت کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اسی پچانوے ، ستانوے یا اس سے کچھ زیادہ اکثریت والے ملک میں اگر ہم ایک ایسا سماجی دبائو تشکیل نہیں دے سکتے جس سے ہماری اسلامی اقدار کا تحفظ ہو تو ہم کو اپنی اقدار کے بارے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بہت سے دوست یہ کہتے ہیں کہ ریاست اگر غیر جانبدار ہوگی تو غیر اسلامی اقدار رواج پائیں گی شراب خانوں پر پابندی نہیں نہیں ہوگی، ہوٹلوں میں کیبرے بھی ہوں گے، خالص مغربی انداز میں۔ ساحلوں پر بکنی پہنے سیاح خواتین عام پھرتی رہے گی، غیر ملکی ماڈلز کے ’’آئیٹم سانگ‘‘ بڑے ہوٹلوں میں عام ہوا کریں گے رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنے پر کوئی پابندی نہیں رہے گی جنرل ضیا کے ترتیب کردہ اسلامی قوانین کو ختم کردیا جائے گا۔ توہین رسالت قانون کے قانون کو برقرار نہیں رہنے دیا جائے گا
میرے یہ دوست یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کی جو تعبیر وہ پیش کرتے ہیں وہ ریاستی جبر کے بغیر نافذ نہیں کی جا سکتی حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تعبیر پر غور کیا جاءے کہ اس میں کیا سقم یا خامیاں ہے جن کو دور کرنے کی بجائے یہ ریاست کی قوت سے اس کو نافذ کروانا چاہتے ہیں۔
میرے دوستوں کو علم ہونا چاہیئے کہ مذہبی حلقوں کا اصل کام یہ ہے کہ وہ سماجی جرائم کے بارے شعور پیدا کریں بغیر بکاح کے جنسی تعلق کے بارے میں نوجوانوں میں ایک شعور پیدا کریں حیا کی اسلامی تعلیم کے بارے کام کریں اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کریں اگر وہ اسلامی اقدار کو ریاست کے ڈنڈے کے بغیر فروغ نہیں دے سکتے تو پھر ان کو یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ مذہب کی ریاستی امور میں مداخلت سے تنگ نظری، فرقہ واریت اور شدت پسنندی ہی جنم لیتی ہے۔ روشن خیال تعبیر کرنے والے ایک ایسی فلاحی اور رفاعی ریاست کی بات کرتے ہیں جہاں کسی گروہ کو مذہب کی حتمی اور جبری تعبیر کا حق نہ ہو اور نہ کوئی گروہ یہ دعوی کرے کہ اس کو ریاست میں ایسا مقام عطا کیا جائے کہ وہ اسلام کی ایسی حتمی تعبیر کرے جو جبرا نافذ کی جائے اور جس کو نہ ماننے والے کافر، مرتد یا گمراہ قرار پائیں۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply