دو قِسم کے لوگ

اس نے جگہ جگہ گروپس کی شکل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بس دو قسم کے لوگ ہیں۔
میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔اچھا۔۔۔؟ وہ کون سے؟
اس نے کہا۔۔۔۔ ایک تمھارے جیسے اور ہاتھوں سے نادیدہ گرد جھارتے ہوئے بولا ,دوسرے میرے جیسے۔
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا:تو اس نے خود ہی بولنا شروع کردیا۔
کہنے لگا اللہ نے کچھ لوگوں میں پیدائشی طور پہ محنت کا خمیر رکھا ہے ,انہیں بے بہا عقل سے نوازہ ہے,ان کے بارے میں عام لوگو ں کا خیال ہے کہ ان لوگوں سے کم ہی کو ئی غلطی سرزد ہوتی ہے۔کیوں کہ یہ لوگ بہت سوچ سمجھ کر ہر کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔یہ لوگ بڑے بڑے عہدوں پہ کام کرتے ہیں۔ان کے نیچے ہزاروں لوگ ہاتھ باندھ کر کھڑے ان کے حکم کے منتظر ہوتے ہیں اور خود انہیں سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔یہ لوگ ہروقت حساب کتاب اور جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں۔ان کے چوبیس گھنٹے ۵=۲+۲کرنے میں گزر جاتے ہیں۔یہ لوگ وقت کی قلت کے باعث اپنے بیوی بچوں ,دوستوں یہاں تک کہ خود اپنے آپ کے لیئے بھی وقت نہیں نکال پاتے۔ انکی بیویاں ان سے ملنے کیلئے ترستی ہیں۔انہیں اپنے بچوں کی شکلیں دیکھے کئی کئی دن گزر جاتے ہیں۔ ان کے لئے دن میں چوبیس گھنٹے بھی کام کرنے کیلئے تھوڑے رہتے ہیں۔یہ لوگ جینیئس لوگ ہیں ,ملک کا بھار ان کے کندھوں پہ ہے۔یہ لوگ دن رات محنت کرکے کماتے ہیں اور ملک کا نظام چلاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو کوئی بھی مقام ,شئے یا عْہدہ حاصل کرنے کیلئے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔چوں کہ یہ لوگ مقابلے کی دوڑ میں شریک ہوتے ہیں اس لیئے اپنے ہی جیسے لوگوں سے حسد کرنا شروع کر دیتے ہیں ,اور آپس میں ہی ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور اس لیئے پیچھے ہی رہ جاتے ہیں۔
اور دوسری قسم ہے میرے جیسے لوگوں کی۔۔۔۔ جنہیں نہ محنت کی عادت ہوتی ہے اور نہ کڑی مشقت کی ,سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو اللہ نے ہر ذی روح کو دی ہے اور ہمیں بھی لیکن کیوں کہ ہم لوگ سختی کے عادی نہیں ہوتے اس لیئے ذرا سی محنت سے ہمارے ہاتھ درد کرنے لگتے ہیں۔ہم لوگوں کے پاس بھی ڈگریاں ہوتی ہیں ,لیکن ہمیں کسی بھی نوکری کی تلاش نہیں ہوتی,ہمارے خرچے کہاں سے اور کیسے پورے ہونگے اس بات کی بھی ہمیں پرواہ نہیں ہوتی۔ہمیں رب بٹھا کر کھلاتا ہے اور یہ اس ذات کا بے بہا کرم ہے کہ ہمیں ِبنا محنت کِیے سب کچھ ملتا چلا جا تا ہے اور ایسا اس لیئے کہ ہم دوسروں کے مرتبوں اور کرسیوں سے حسد نہیں کرتے,اس لیئے رب ہمیں ہماری مرضی کے مطابق نوازتاہے۔اس لیئے یہ پہلی قِسم کے لوگ محنتی اور جینیئس ہونے باوجود ہم دوسری قِسم کے لوگو ں کی ماتحتی میں کام کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں اور یہ دوسری قِسم کے لوگ صِرف حکم چلاتے ہیں ,بیٹھ کر کھاتے ہیں۔پھر وہ بولا کہ۔۔۔۔ ملک امیرگورنر آف مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ کے پاس دو آدمی آئے ,ایک نے کہاکہ میرے بیٹے نے گریجویشن کیا ہے آپ اسے کسی اچھی نوکری پہ لگوا دیں۔نواب صاحب نے آرڈر دِیا کہ اِسے کلرک کی جگہ بٹھا دو۔دوسرے آدمی نے کہا کہ سر میرے بیٹے نے میٹرک کیا ہے۔نواب صاحب نے کہاکہ اِسے کِسی اچھی سِیٹ پہ بٹھا دو۔……ملازم نے پوچھاکہ سر یہ کیا ماجرا ہے؟ تو نواب صاحب نے جواب دِیاکہ بھئی کام تویہ زیادہ پڑھا لِکھا شخص ہی کرے گا نا جِسے محنت کی عادت ہے, اور یہ میٹرک تک پڑھا شخص کیا کام کرے گا بھلا؟……اِس لِیئے اِسے َافسری دی ہے تاکہ فارغ بیٹھا حکم چلائے, یہ کہہ کر وہ ذرا پل کو رْکا تو میں نے جلدی سے اپنی بات شروع کر دی کہ بیشک یہ پہلی قِسم کے لوگ دوسری قِسم کے لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن یہی لوگ عظیم ہیں کیوں کہ اِنہیں محنت کی طاقت ودیعت کی گئی ہے۔ایسی طاقت جو اللہ نے انبیاء کرام کو بخشی ,اور اللہ تعالی محنت کرنے والے کو اپنا دوست رکھتاہے۔محنت میں ہی برکت ہے اور اِس سے بڑی کامیابی اِن لوگوں کی اور کیا ہوگی کہ لوگ اپنی گفتگو میں اِن کی محنت کی مثالیں دیتے ہیں۔یہ لوگ محنت کے بَل بوتے پہ دنیا میں اپنانام کر جاتے ہیں۔اور ہمیشہ زندہ رہتے ہیں!!!!
مٹی ہیں سو مٹی سے ہی رکھتے ہیں سروکار
آتے نہیں خورشیدمزاجوں کے اثر میں ……!!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply