افلاطون کی مثالی ریاست اور ہمارے پیشہ ور حکمران

افلاطون اپنی شہرہ آفاق کتاب”الجمہوریہ”میں مثالی ریاست کا خاکہ بیان کرتا ہے۔ افلاطون کی کتاب کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اسکے ابواب نمبر دو، تین اور چار ریاست کے بنیادی اصول، اس کا ڈھانچہ اور تشکیل کو بیان کرتے ہیں۔ افلاطون اپنی کتاب میں ریاست کی تشکیل کے لیے انسان کو اہم گردانتے ہوئے انسانی روح کو تین عناصر میں تقسیم کرتا ہے۔ جس میں عقل، جذبہ اور خواہش شامل ہیں۔ انسانی روح کے عناصر دراصل افلاطون کی مثالی ریاست کے بنیادی خدوخال میں شامل ہے۔ افلاطون اپنی مثالی ریاست کو تین طبقات میں تقسیم کرتا ہے جس میں دانشور(فلسفی) حکمران، فوجی طبقات اور پیشہ ور مزدور لوگ شامل ہیں۔ افلاطون کے نزدیک ریاست کے یہ تین طبقات ہی ریاست کے نظم ونسق اور معاملات کے ذمہ دار ہوں گے۔ افلاطون کے مطابق انہی طبقات کی اولادیں نسل در نسل اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی۔

افلاطون اپنی مثالی ریاست کے خدوخال میں طرز حکمرانی کو بڑی ترجیح دیتے ہوئے اسے تین اقسام میں تقسیم کرتا ہے۔ جس میں جمہوریت، بادشاہت اور اشرافیہ(ارسٹو کریسی) شامل ہیں۔ افلاطون ایک ایسی مثالی ریاست کی تشکیل کا داعی تھا جس میں ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے گا۔ افلاطون کی مثالی ریاست کا نقشہ موجودہ جدید دور کی جمہوریت میں کہیں کہیں نظر آتا ہے لیکن بنیادی اصولوں کے برعکس۔ افلاطون کی مثالی ریاست دراصل موروثیت اور طبقات کو جنم دیتی ہے۔ افلاطون کی طبقاتی تقسیم دراصل ریاست میں چھوٹے اور بڑے کے درمیان فرق کا تعین بھی شامل ہے۔ اگر افلاطون کی مثالی ریاست کا موازنہ پاکستان کی ریاست سے کیا جائے تو چند ایک تبدیلیوں کے علاوہ باقی سب کچھ بالکل ویسے کا ویسا ہی ہے۔

اگر پاکستانی ریاست کے بنیادی خدوخال پر نظر دوڑائی جائے تو ہمارے ہاں لاچار اور کمزور فرد اس ملک کا گنہگار متصور ہوگا۔ پاکستانی فرد کی روح کے عناصر کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو غلامی ، جہالت اور انتہا پسندی شامل ہیں۔ پاکستانی ریاست کے موجودہ طبقات کا اگر افلاطون کی مثالی ریاست کے طبقات کے ساتھ موازنہ کریں گے تو افلاطون کے فلسفی حکمران کی جگہ ہمارے ہاں فیملی لیمیٹڈ پارٹیوں کے سربراہان نے لے لی ہے، باقی اگر دیکھیں تو فوجی طبقہ اور مزدور لوگ آج بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ استحصال اس ملک کے مزدور طبقے کا ہو رہا ہے۔ مزدور کا بیٹا ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی مزدور ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

افلاطون نے ریاست کو مثالی بنانے کے لیے ریاست کو تین طبقات میں تقسیم کیا تھا، لیکن ہم نے ریاست پاکستان میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اور دیرپا اقتدار کے لیے مختلف طبقات میں تقسیم کردیا۔ آج ہم نے ریاست پاکستان کو کیا دیا؟ جو فلسفے کی بات کرے ہم اسے اپنی جہالت کی نظر کردیتے ہیں۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply